دو ججز کو سلام

جمعہ 12 جنوری 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انگریزی کی ایک کہاوت کا اگر ترجمہ کرنے کی کوشش کی جائے تو مفہوم کچھ یوں بنتا ہے ’یہ اہم نہیں کہ کیا ہو رہا ہے بلکہ اہم یہ ہے جب یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اس وقت آپ کیا کر رہے ہیں‘۔

حالات کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کبھی کٹھن ہوتے ہیں، کبھی آسان ہوتے ہیں۔ کبھی رستے میں کانٹے بچھے ہوتے ہیں کبھی رستہ گل و گلزار ہوتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں انسان کی اصلیت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ کس خمیر کا بنا ہوا ہے۔ اس کی پرداخت کن مقاصد کے لیے کی گئی ہے، اس سے کیا کام لینا مقصود ہے۔

اچانک ہی سپریم کورٹ میں تہلکہ مچ گیا۔ ایک نہیں دو، دو ججز کے استعفوں کی خبریں آنے لگیں۔ یوں لگا آسمان گر پڑا ہو۔  زمیں پھٹ پڑی ہو۔ ہائی برڈ نظام کی آخری اینٹ بھی دیوار سے ڈھے گئی ہو۔

مظاہرعلی نقوی کے استعفٰی کا تو امکان نظر آتا تھا مگر اعجاز الحسن کے استعفے نے تو کمال ہی کر دیا، ساری بساط ہی الٹ گئی۔ دو سال کی ہی نہیں دہائیوں کی محنت برباد ہوگئی۔

کوئی پوچھے تو سہی اچانک ایسے استعفے کیوں دیئے گئے؟ کیا خوف مانع تھا؟ کیا خدشات لاحق تھے؟ کیا وسوسے پل رہے تھے؟ کیا احتساب کا ڈر تھا؟ کیا انتقام کا خوف تھا؟ کیا کرتوت سامنے آنے کا اندیشہ تھا؟ کیا اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے سے ڈر رہے تھے؟ کیا اپنے بارے میں فیصلوں کا سامنا کرنے سے خائف تھے؟ کیا اپنے عہد عبرتناک کے زوال کو دیکھنے سے خوفزدہ تھے؟ استعفٰی دے دینا تو کوئی بہادری نہیں تھی؟  جوتے چھوڑ کر بھاگ جانا تو کوئی دلیری نہیں تھی؟ ریت میں منہ چھپا لینا تو کوئی دانشمندی نہیں تھی ؟

ایک جج تو وہی ہیں جو ’ٹرکوں والے جج‘ کے نام سے بدنام ہیں، جو وکیل بدلنے پر فیصلہ بدل دیا کرتے تھے؟ جو پرویز الٰہی کی طرف سے’ٹرکوں‘ کے منتظر رہا کرتے تھے؟ جو بدنام ہی نہیں بدنام زمانہ تھے۔ جنہوں نے ادارے کی ساکھ کو بٹہ لگایا، تجوریاں بھریں، مال کمایا  اور جی بھر کر کمایا۔ جن کے اعمال کی داستانیں سائلین کے ہاں زبان زد عام تھیں۔ جنہوں نے انصاف کے نام پر ایک دکان کھولی اور اس پر سستا اور ارزاں سودا بیچا۔ ہر چیز کو اپنے ضمیر سمیت فروخت کیا۔

دوسرے وہ ہیں جو تین کے ٹولے کے جزو لاینفک تھے، جو پانامہ میں مانیٹرنگ جج بھی رہے۔ جو متنازعہ اور غیر آئینی فیصلوں میں پیش پیش رہے۔ جو بندیال اور ثاقب نثار کی آنکھ کا تارا اور انصاف کی آنکھ میں کسی نجس کے بال کی طرح رہے۔ جنہوں نے اپنے فیصلوں سے کبھی آئین کو دوبارہ تحریر کیا، کبھی پارلیمان کے کاموں میں مداخلت کی۔ خود کو آئین، قانون اور پارلیمان سے برتر سمجھا۔ سیاسی جماعتوں سے انتقام لینے پر منہمک رہے۔ نواز شریف کو سزا دینا ان کا نصب العین ٹھیرا تھا۔ اس میں کامیاب بھی ہوئے لیکن ان کی کامیابی وقتی ثابت ہوئی۔

اس وقت یہ دونوں جج زیرعتاب ہیں۔ مظاہرعلی نقوی نے پہلے ہی ہلے میں احتساب سے بچنے کے لیے استعفی دے دیا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ احتساب بھی نہ ہو اور پنشن و دیگر مراعات بھی قائم رہیں۔

اعجاز الاحسن نے بظاہر احتجاجاً استعفی دیا لیکن اپنی پنشن وہ بھی بچا گئے اور مراعات بھی۔ احتساب اور قانون کا سامنا ان دونوں میں سے کسی نے نہیں کیا حالانکہ ساری عمر اسی قانون کے تحت دوسروی کی زندگیاں اور تجوریوں اجاڑتے رہے۔

اب آتے ہیں دو مختلف مثالوں کی طرف، دیکھنے کی بات ہے کہ ان کے اوپر عتاب ٹوٹا تو انہوں نے کیا رویہ اختیار کیا؟ انصاف کا ساتھ دیا یا دوڑ لگا دی؟ قانون کا سامنا کیا یا راہ فرار اختیار کی؟ سچ بولنے کو ترجیح دی یا پھر جھوٹ کی دیوار کے پیچھے چھپنے کو فوقیت دی؟ انصاف کی پاسبانی کی یا تحریک انصاف کی نگہبانی کی؟ آئین کا سہارا لیا یا منہ چھپا کر بھاگ گئے؟ خود پر لگنے والے الزامات کا دلیری سے سامنا کیا یا پھر بزدلی اختیار کی؟ یہ بہت دلچسپ موازنہ ہے۔

ابھی جو کچھ سپریم کورٹ میں ہو رہا ہے، یہ کچھ بھی نہیں۔ اس کے مقابلے میں جو کچھ دور عمران و فیض میں ہوا، اسے جان لیجیے۔ جب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نوکری سے برطرف کیا گیا، ان کے لیے روزگار کے سب دروازے بند کیے گئے، ان کے گھر والوں کو ڈرایا دھمکایا گیا، ان کی صاحبزادی کو اغوا کی دھمکی دی گئی۔ ان کا خوفناک میڈیا ٹرائل کیا گیا،ان کو اور ان کے خاندان کو گالیاں دی گئیں۔

شوکت عزیز صدیقی کو اپنی مشہور زمانہ تقریر سے پہلے اس ردعمل کا بخوبی اندازہ تھا۔ وہ چاہتے تو جنرل فیض کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر اس وقت استعفیٰ دے کر پنشن بھی لیتے اور مراعات بھی لیکن انہوں نے جنرل فیض کے جبر و استبداد کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ سب کچھ گنوا دیا مگر عزت کما لی۔ اور تاریخ میں جگہ بنا لی۔

دوسرے جج ہیں قاضی فائز عیسٰی، جن کے خلاف عمران خان کے دور میں محلاتی سازش کا جال بچھایا گیا۔ عمران خان  اس سازش کے سربراہ تھے، فروغ نسیم اس کے موجد تھے۔ خفیہ ہاتھ اس کے نگہبان تھے۔

فیصلہ یہ ہوا تھا کہ قائد اعظم کی ہم رکاب قابل صد احترام شخصیت کے صاحبزادے پر وہ کیچڑ اچھالا جائے کہ وہ خود میدان چھوڑ کر بھاگ جائے لیکن چشم فلک نے دیکھا، جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف میڈیا ٹرائل ہوا، ان کی بزرگ اہلیہ کو پیشیوں میں گھسیٹا گیا، ان پر بہتان لگائے گئے لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ خود اپنا دفاع کیا۔ جبر و استبداد کے دور میں سے نتھر کے سامنے آ گئے۔

آج تاریخ  دو مناظر دیکھ رہی ہے۔ ایک منظر میں وہ دو جج ہیں جو احتساب کی پہلی انگڑائی پر ہی جوتیاں چھوڑ کر بھاگ گئے  اور دوسرے منظر میں دو ایسے  ججز کے نام سنہری الفاظ میں چمک رہے ہیں جنہوں نے ظلم کے ضابطوں کے خلاف ڈٹ جانے کی روش اپنائی۔

تاریخ  ان دو ججز کو ہمیشہ سلام پیش کرے گی۔ اور احتساب سے فرار ہوکر مستعفی ہونے والے دو ججز کو تاریخ جس نام سے پکارے گی یقین مانیے وہ نام لکھا نہیں جا سکتا۔ اور گالی دینے کی اجازت کالم میں ہوتی نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp