عمران خان سمیت دیگر قیدی جیل سے ووٹ کاسٹ کیسے کریں گے؟

ہفتہ 13 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عام انتخابات میں اب ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ انتخابات 2024 پر بڑے سوالیہ نشان ہونے کے باوجود فافن، پلڈاٹ اور دیگر اداروں کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ انتخابات ہر صورت ہو کر رہیں گے اور پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ ووٹ ڈالنے کے اہل تمام شہری اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کریں تاکہ اس عمل کو متنازع بننے سے بچایا جا سکے۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں قیدیوں کو بھی ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بار جیل سے ووٹ کاسٹ کرنے والے قیدیوں میں عمران خان بھی شامل ہیں۔

لیکن کیا قیدیوں کو جیل سے قریبی پولنگ اسٹیشنز تک ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے لے جایا جاتا ہے یا پھر ووٹنگ کا جیل میں کوئی باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ذہنوں میں ابھرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق وہ تمام قیدی جو 18 سال یا 18 سال سے زیادہ کے ہوں اور ان کے پاس شناختی کارڈ موجود ہو تو وہ تمام قیدی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔

پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے اور اس کیٹیگری میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جو گورنمنٹ آف پاکستان کے ملازم، اسپیشل پرسنز یا پھر قیدی ہوں۔ یہ وہ تمام لوگ ہیں جو اپلیکشن کے ذریعے یوں ووٹ کاسٹ کرنے کی درخواست کر سکتے ہیں اور 22 جنوری 2024 تک ایسے تمام لوگ جو پولنگ استیشنز نہیں جا سکتے اپنی درخواستیں بھیج سکتے ہیں جبکہ تمام  ایسے افراد کو انتخابات کے دن سے ایک دن قبل یعنی 7 فروری ہر صورت اپنا ووٹ بھیج دینا ہوگا ورنہ اس کے بعد ان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق تمام قیدی اور دیگر اپنا ووٹ سیل کر کے دیتے ہیں اور 17 گریڈ کے افسر سے ڈکلیئریش سائن کرواتے ہیں کہ ووٹ آپ نے اپنی مرضی کے مطابق دیا ہے اور قیدی اپنے سپرنٹینڈنٹ سے بھی سائن کرواتے ہیں۔

عمران خان کیسے ووٹ کاسٹ کریں گے؟

اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ عمران خان بھی چونکہ قیدی ہیں تو وہ بھی باقی تمام قیدیوں کی طرح ہی درخواست جمع کروائیں گے اور اس کے بعد ان کو پوسٹل بیلٹ پینچا دیا جائے گا اور وہ بھی باقی سب کی طرح ووٹ کو سیل کر کے کروا کر بھیج دیں گے۔ فی الحال تو یہی ہوگا لیکن کیا پتا انہیں کوئی اسپیشل پروٹوکول بھی مل سکے گا یا نہیں جبکہ قانون کے مطابق کسی کو بھی اسپشل پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔

واضح رہے کہ اس وقت پنجاب میں 66 ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں تاہم جیلوں سے فہرستیں وصول ہونے کے بعد ووٹر قیدیوں کا حلقہ، یونین کونسل اور ووٹ نمبر آئی جی جیل خانہ جات کے دفتر کو بھجوا دیں گے اور 22 جنوری تک تفصیلات موصول ہونے کے بعد بیلٹ پیپرز کے لیے فہرستیں الیکشن کمیشن کو بھجوادی جائیں گی۔ کیمروں کی موجودگی میں ووٹ کاسٹ کروا کر الیکشن کمیشن کو بھجوائے جائیں گے۔ گزشتہ الیکشن میں بھی قیدی ووٹرز کی معمولی تعداد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر 2022 تک،پاکستان کے چاروں صوبوں کے 116 جیلوں میں قیدیوں کی کل تعداد 88 ہزار 650 تھی۔ مطلب ہر جیل میں اوسطاً 764 قیدی ہوتے ہیں۔ قیدیوں کی آبادی میں ایک ہزار 399 خواتین، ایک ہزار 430 کم عمر کے قیدی شامل تھے۔ جبکہ جغرافیائی تقسیم کے لحاظ سے، جنوری 2020 تک، پنجاب میں 41 جیلیں تھیں جن میں 45,324 قیدی تھے۔ سندھ کے پاس 24 ہولڈنگ 16,315، خیبرپختونخوا میں 20 ہولڈنگ 9,900 اور بلوچستان میں 11 قیدیوں کی تعداد 2,122 تھی۔

ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حسن رضا پاشا نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ قیدی پوسٹر بیلٹ کے ذریعے ہی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور پوسٹل بیلٹ اسے بولتے ہیں جب کوئی سرکاری ملازم یا کوئی شخص کی دسترس میں کوئی پولنگ اسٹیشن نہ ہو اور اسے چھٹی بھی نہ مل سکتی ہو کہ وہ ووٹ کاسٹ کرنے چلا جائے جیسے سرکاری ملازمین یا وہ فوجی جو بارڈرز پر ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت ایسے افراد پوسٹل بیلٹ کے لیے اپنی درخواست جمع کرواتے ہیں۔ اسی طرح جیل میں جتنے بھی قیدی ہوتے ہیں، وہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو درخواست لکھتے ہیں۔ کہ وہ ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن کو ان کا بائیو ڈیٹا بھیجا جاتا ہے اور وہ تصدیق کر کے ان تمام افراد کو بیلٹ پیپرز بھیج دیتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان بھی اگر چاہیں گے و اس عمل کے تحت ووٹ کاسٹ کر سکیں گے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے آئینی ماہر ایڈووکیٹ شاہ خاور نے بتایا کہ جیل میں موجود یا وہ قیدی بھی جن کا ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔ انہیں نہ تو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے کہیں لے جایا جاتا ہے اور نہ ہی جیل میں ایسا کوئی انتظام کیا جاتا ہے کہ وہ باقی تمام لوگوں کی طرح ووٹ کاسٹ کریں۔ بلکہ تمام قیدی جو ووٹ ڈالنے کے لیے اہل ہوں اور ووٹ کاسٹ کرنے کے خواہشمند بھی ہوں وہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو لکھتے ہیں کہ انہیں ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد پھر جیل سپرنٹینڈنٹ ریٹرننگ آفسر کو پوسٹل بیلٹ کے لیے تمام قیدیوں کی لسٹیں فراہم کرتا ہے جو الیکشن کمیشن تک پہنچائی جاتی ہیں۔ اس تمام عمل کے بعد الیکشن کمیشن ان تمام قیدیوں کو پوسٹل بیلیٹ پہنچاتا ہے جس کے بعد وہ اپنی مرضی سے ٹھپہ لگانے کے بعد بیلٹ سیل کر کے دے دیتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp