تائیوان کے ووٹروں نے ایک تاریخی انتخابات میں خود مختاری کے حامی امیدوار ولیم لائی کو اپنا صدر منتخب کیا ہے، جس سے چین سے گریز پائی کو بظاہر مہمیز ملی ہے۔
اس انتخابی نتیجے نے بڑی حد تک بیجنگ کو ناراض کیا ہے، جس نے نتائج کے بعد ایک بیان میں ایک مرتبہ پھر’تائیوان چین کا حصہ ہے‘ کے بیانیے پر اصرار کیا ہے۔
یوں تو بیجنگ نے دوبارہ پرامن اتحاد پر زور دیا ہے لیکن تائیوان کے انتخابات کو ’جنگ اور امن‘ کے درمیان انتخاب کے طور پر پیش کرنے کے بعد طاقت کے استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا ہے۔
چین نے حالیہ مہینوں میں جزیرے کے ارد گرد اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا دیا ہے، جس سے ممکنہ تصادم کے خدشات بڑھ گئے ہیں، تائیوان نے بھی ایسے صدر کا انتخاب کیا ہے جسے چین قطعاً پسند نہیں کرتا۔
"The Taiwanese people have successfully resisted efforts from external forces to influence this election."
Winning candidate in Taiwan's presidential election, Lai Ching-te, makes first speech since victory.https://t.co/6ekvspUIVd
📺 Sky 501, Virgin 602 and YouTube pic.twitter.com/lR3cBuHG9Y
— Sky News (@SkyNews) January 13, 2024
بیجنگ کی کمیونسٹ حکومت نے تائیوان کی خودمختاری کی حامی ولیم لائی کی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کو، جس نے تائیوان پر 8 برس حکومت کی ہے، ہتک آمیز رویے کا نشانہ بنایا ہے۔
اپنی پارٹی کے لیے مسلسل تیسری بار بے مثال صدارتی انتخاب جیت کر صدر ولیم لائی نے نئی بنیاد رکھی ہے، اپنے مخالفین کی جانب سے شکست تسلیم کرنے کے بعد اپنے ابتدائی ریمارکس میں انہوں نے اپنی کامیابی کو ایک ’ناقابل واپسی‘ رفتار سے تشبیہ دی ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں عالمی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں صدر ولیم لائی کا کہنا تھا کہ ملک صحیح سمت پر گامزن ہے اور اسی سمت آگے بڑھتا رہے گا، بعد ازاں، دارالحکومت تائی پے کی سڑکوں پر ہزاروں پرجوش حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے اپنی جیت کو جمہوریت کی فتح قرار دیا ہے۔
’ہم نے یہ کر دیا ہے، ہم نے بیرونی طاقتوں کو اپنے انتخاب پر اثر انداز ہونے نہیں دیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ صرف ہم اپنے صدر کا انتخاب کر سکتے ہیں۔‘
انتخابات سے قبل تائیوان نے چین پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس عمل میں مداخلت کی کوشش کر رہا ہے، اپنی فتح کے بعد صدر ولیم لائی کا چین کے لیے بھی پیغام تھا، جب انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ رکاوٹوں اور تنازعات پر زیادہ تبادلے اور بات چیت کے حق میں ہیں، انہوں نے بیجنگ کے ساتھ امن اور استحکام پر بھی زور دیا۔
اس کے ساتھ ہی، نو منتخب صدر ولیم لائی نے مزید کہا کہ وہ نہ تو آزادی چاہتے ہیں اور نہ ہی چین کے ساتھ اتحاد بلکہ وہ آبنائے کے مابین جمود کو برقرار رکھیں گے، انہوں نے تائیوان کو چین کے خطرات سے محفوظ رکھنے کا بھی عہد کیا۔
بیجنگ نے صدر ولیم لائی کو ماضی میں تائیوان کی آزادی کی حمایت کرنے والے ریمارکس پر ’علیحدگی پسند‘ اور ’مسئلہ پیدا کرنے والا’ قرار دیا ہے، جسے خطرے کے سرخ نشان کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن حالیہ مہینوں میں صدر ولیم لائی نے عندیہ دیا ہے کہ وہ باضابطہ آزادی کے خواہشمند نہیں ہیں۔
گزشتہ روز، چین کی ریاستی کونسل کے تائیوان امور کے دفتر کے ایک بیان میں اصرار کیا گیا کہ تائیوان کے انتخابات ’مادر وطن کے دوبارہ اتحاد کے نہ رکنے والے رجحان کو نہیں روک سکتے اور ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی تائیوان میں ’مرکزی دھارے میں عوامی رائے کی نمائندگی نہیں کرتی‘۔
تائیوان کا سیاسی منظر نامہ
ہفتہ کو تائی پے میں ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کے مرکزی دفتر کے باہر حامیوں نے صدارتی فتح کا جشن منایا، ولیم لائی کے 40 فیصد ووٹوں نے انہیں ہو یو ہی کی مرکزی اپوزیشن جماعت کومن تینگ پر یقینی طور پر برتری دلادی ہے، تاہم 2000 کے بعد سے تائیوان میں ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی اور کومن تینگ کی متبادل حکومتیں رہی ہیں جو بیجنگ کے لیے دوستانہ ہے۔
ہفتہ کو ووٹروں نے بھی اپنی مقننہ کا انتخاب کیا، نوجوان ووٹروں میں مقبول تائیوان کے سیاسی منظر نامے پر نمودار ایک نئی جماعت تائیوان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے غیر روایتی سیاستدان کو وین-جے نے ایک چوتھائی ووٹ حاصل کیے ہیں۔
تائیوان کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی اپوزیشن کی مثبت پیش رفت کے ساتھ اپنی اکثریت کھو چکی ہے، لیکن اس وقت کسی بھی پارٹی کے پاس اتنی نشستیں نہیں ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کو کنٹرول کر سکے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمراں ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کے صدر کے ساتھ اپوزیشن کی اکثریت والی پارلیمنٹ کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے اور وہ یہ تائیوان پر حکومت کرنے کا عمل مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔
امریکی رد عمل
تائیوان کا سب سے بڑا اتحادی ہونے کے ناطے امریکا نے صدر ولیم لائی کی فتح پر مبارکباد دینے میں تیزی دکھائی، سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے بھی جزیرہ تائیوان کے مضبوط جمہوری نظام اور انتخابی عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن آبنائے کے دونوں جانب امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، صدر جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکا تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا۔