سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے انتخابی نشان ’بلے‘ سے متعلق فیصلے کے بارے میں بعض قانونی اور انتخابی ماہرین نے اسے ووٹرز کے حقوق کے لیے دھچکا قرار دیا ہے اور بعض قانونی ماہرین اسے تحریک انصاف کی جانب سے عدالتی کارروائی کے دوران مناسب قانونی دلائل پیش نہ کرنے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’پی ٹی آئی نے اس معاملے میں سیاسی مفادات پر توجہ مرکوز رکھی جب کہ اس کے وکلا نے قانونی اور آئینی بنیادوں کو تقریباً نظر انداز کیا۔ چونکہ عدالتیں ایک قانونی فورم ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کے وکلا کے عدالت میں سیاسی دلائل نے زیادہ اثر نہیں دکھایا۔
پی ٹی آئی کو اصل نقصان مخصوص نشستوں پر ہو گا، محبوب بلال
انہوں نے کہا کہ ’ سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح طور پر پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اصل نقصان قومی اسمبلی کی 60 مخصوص نشستوں سمیت 226 نشستوں سے محرومی ہے۔ اس سے پارٹی کے اقتدار میں آنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں لیکن ایسا ہوتا ہے کہ پارٹیاں کبھی کمزور ہو جاتی ہیں تو کبھی دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔
پی ٹی آئی کو احتجاجی سیاست چھوڑ کر مؤثر اپوزیشن بننے کا مشورہ
محبوب بلال نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ احتجاج کی سیاست کو چھوڑ دیں اور اس کے بجائے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں ایک مؤثر اپوزیشن بننے کی تیاری کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی احتجاج کی سیاست سے باہر آتی ہے تو اس کے لیے مشورہ یہی ہے کہ وہ ’ پارٹی امیدواروں کو اپنے مخالفین کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرکے حزب اختلاف میں یا صوبائی حکومت میں زیادہ سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
پی ٹی آئی امیدواروں کے پاس آزاد الیکشن لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، جبران ناصر
سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وکیل اور سیاسی تجزیہ کار جبران ناصر نے ’بلے‘ کا نشان کھونے کے بعد پی ٹی آئی کو درپیش مشکلا اور نتائج کے بارے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’ پی ٹی آئی سے وابستہ امیدواروں کے پاس آزاد الیکشن لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے اور ہر ایک امیدوار کو اپنی مرضی کے مطابق اشتہارات کے ساتھ انفرادی انتخابی مہم چلانی ہوگی کیونکہ ہر ایک کا ایک الگ نشان ہوگا۔’ اس کا براہ راست اثر انتخابی اخراجات، تنظیم سازی، انتخابی مہم وغیرہ پر پڑتا ہے۔
These are the major consequences of the Supreme Court decision for #PTI taking away the BAT symbol and thus leaving no option for PTI affiliated candidates except contesting as independents:
1) Every single candidate will have to do an individual campaign with customized…— M. Jibran Nasir 🇵🇸 (@MJibranNasir) January 13, 2024
نشان سے محروم پی ٹی آئی کو مزید نقصان ہو گا
جبران ناصر کے مطابق اگر پی ٹی آئی نے انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود اپنا مشترکہ نشان برقرار رکھا ہوتا تو اس کے ووٹرز ’خود ایک نشان پر ووٹ ڈالنے کے لیے متحرک اور منظم رہتے لیکن اب ایسا نہیں ہے اس سے پی ٹی آئی کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں ناصر حسین کا مزید کہنا تھا کہ اب پی ٹی آئی سے وابستہ جو بھی آزاد امیدوار کامیاب ہوں گے انہیں الیکشن کمیشن آزاد امیدوار قرار دے گا اور آئین کے تحت وہ کسی بھی جماعت میں شمولیت کے لیے آزاد ہوں گے۔
پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملنے سے ہارس ٹریڈنگ ہو گی
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو امیدوار پی ٹی آئی کے ووٹروں کی حمایت سے جیت سکتا ہے وہ دباؤ، اثر و رسوخ یا ذاتی فائدے کے لیے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی میں بھی شامل ہو سکتا ہے۔ اس سے زبردست ہارس ٹریڈنگ ہو گی۔
پی ٹی آئی کو بلے سے محروم کرنا افسوس ناک ہے
جبران ناصر کے مطابق پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے تمام امکانات بھی کھو دے گی۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ پی ٹی آئی کو بلے سے محروم کرنا پورے پاکستان میں لاکھوں ووٹروں کو محروم کرنے کے مترادف ہے۔
SC judgment upholding ECP decision to deny PTI election symbol is an excessive, punitive response to not conducting intra-party polls as per law
It is a huge blow to our fundamental rights jurisprudence regarding political parties + political participation
Extremely unfortunate
— Reema Omer (@reema_omer) January 13, 2024
پی ٹی آئی سے بلا لینا سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کے لیے بڑا دھچکا ہے، ریما عمر
وکیل ریما عمر نے بھی فیصلے پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے کے لیے ایکس پر ٹویٹ کیا ہے۔ عمر نے اسے ‘قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر حد سے زیادہ تادیبی کارروائی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں اور سیاست کرنے والوں کے بنیادی حقوق کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے‘۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے لاکھو رائے دہندگان کے حقوق داؤ پر لگ گئے، عبداللہ نیازی
ہائی کورٹ کے وکیل اور لمز یونیورسٹی کے سابق پروفیسر حسن عبداللہ نیازی نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ایک خوفناک مثال کہا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ بنیادی حقوق سے متعلق بینظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ کے طے شدہ قانون کے براہ راست منافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے کہ کم خواندگی والے ملک میں انتخابی نشانات کتنے اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک سیاسی جماعت کے حقوق ہی داؤ پر نہیں لگے تھے بلکہ لاکھوں رائے دہندگان کے حقوق بھی داؤ پر لگے ہوئے ہیں جن میں اب ایک سیاسی جماعت کو اس کے بنیادی حق کو استعمال کرنے سے محروم کر دیا گیا ہے۔
PTI leaders jailed. PTI electoral candidates' nomination papers denied. PTI online rallies/fundraisers blocked. Top PTI rival's legal woes melt away. SC justices perceived as siding w/PTI step down. PTI denied use of election symbol.
This is brazen, not subtle, pre-polls rigging.— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) January 13, 2024
انتخابات سے قبل دھاندلی نہیں بے شرمی ہے، مائیکل کوگلمین
ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس ‘ پر اپنے پیغام میں کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کو جیل بھیج دیا گیاہے۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں اور ان کے آن لائن جلسوں اور فنڈ ریزنگ کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان استعمال کرنے سے محروم کر دیا گیا۔ یہ انتخابات سے قبل ہونے والی دھاندلی نہیں بلکہ بے شرمی ہے۔