آئین کی بالادستی اور سیاسی استحکام کے لیے تا حیات نا اہلی کیخلاف فیصلہ ناگزیر تھا، قانونی ماہرین

پیر 8 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قانونی ماہرین نے تا حیات نا اہلی کیس کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو درست اور بروقت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی اور سیاسی استحکام کے لیے ایسا ہی فیصلہ آنا ضروری تھا۔ آئین میں کہیں بھی تا حیات نااہلی کی شق موجود نہیں، سپریم کورٹ نے فیصلہ دے کر آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو برقرار رکھا ہے۔

سپریم کورٹ کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کو کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمارا پہلے دن سے ہی یہ مؤقف رہا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلہ غیر آئینی اور غیر منصفانہ ہے۔ آئین میں دیے گئے حقوق کے مطابق آپ کسی کو بھی تا حیات نا اہل قرار نہیں دے سکتے۔ آئین میں کہیں بھی تاحیات نا اہلی یا سیاست پر پاپندی کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے، اعظم نذیر تارڑ

انہوں نے کہا کہ یہ ایک عجیب بات تھی کہ ایک قاتل یا ریپ کیس میں ملوث شخص 5 سال کی سزا کے بعد الیکشن لڑ سکتا تھا لیکن اپنے اثاثے چھپانے کے بے بنیاد الزام پر ایک شخص کو تا حیات نا اہل قرار دینا سمجھ سے ہی بالا تر تھا۔ سپریم کورٹ کا آف پاکستان کا فیصلہ آئین اور قانون کے عین مطابق ہے اور تاریخی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بروقت ہے کیوں کہ تا حیات نا اہلی کی وجہ سے آر اوز کو بھی فیصلوں میں بہت مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر ایک دھبا صاف کیا ہے۔

صادق اور امین کی شق کی درست تشریح ہو گئی ہے

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوئی آئین تبدیل نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو سمیع اللہ بلوچ فیصلے کی تشریح کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا ہے۔ اس فیصلے سے الیکشن کمیشن کے کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد کرنے کے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ ایک اُمیدوار کے کرکٹر کو آئین کے مطابق جن قواعد و ضوابط پر نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے وہ الیکشن کمیشن کے قوانین میں برقرار ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صادق اور امین والی شق کی بھی درستی اور تشریح کی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ابھی تک تفصیلی فیصلہ آئے گا تو اس سے معلوم ہو گا کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی کن بنیادوں پر تشریح کی ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔

آرٹیکل 62 کی تشریح نہ ہوتی تو سیاسی عدم استحکام کا اندیشہ برقرار رہتا

سپریم کورٹ آف پاکستان اگر آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح نہ کرتی تو پھر آئندہ یہ تلوار سر پر لٹکتی رہتی، اب صادق اور امین کے حوالے سے تشریح بھی ہو گئی ہے اور عدالت کے ایک جج کے فیصلے کی بھی درست تشریح ہو گئی ہے۔ اگر نواز شریف کل کو وزیر اعظم بنتے تو ملک میں اس فیصلے کی وجہ سے عدم استحکام کا اندیشہ برقرار رہتا۔اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا یہی اصل وقت تھا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ سو فیصد درست اور بروقت ہے، احمد بلال محبوب

ماہر قانون اور سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بروقت فیصلہ سنایا ہے جس سے الیکشن کے انعقاد میں بھی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں کیوں کہ آراوز نے بھی اس  کی وجہ سے کئی فیصلے روک رکھے تھے کہ ہم کس کو اہل یا نا اہل قرار دیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد آر اوز اور ٹربیونلز کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں، سمیع اللہ بلوچ کا نااہلی فیصلہ قومی انصاف کے بھی خلاف تھا، جب آئین نے کسی کی نا اہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا ہوا تو آپ کیسے اس کی نا اہلی کی مدت کو طے کر سکتے ہیں، یہ تو آئین کو دوبارہ لکھنے والی بات تھی۔ اس لیے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جانا سو فیصد درست اور انصاف پر مبنی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اس سے کس کو فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان، آئین کے مطابق یہ بالکل درست فیصلہ ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے سے پارلیمنٹ کی بالادستی بھی برقرار رہی ہے اور آئین کی بھی درست تشریح ہوئی ہے اس لیے اب الیکشن کی شفافیت پر بھی اس قانون کے حوالے سے کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

اگر کسی غلط تشریح کے تحت کوئی پارلیمنٹ وجود میں آتی تو آئندہ بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام برقرار رہتا اس لیے یہ انتہائی عمدہ اور بروقت فیصلہ ہے۔

سپریم کورٹ نے برسوں بعد ملک کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی، عرفان قادر

سابق ارٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ تا حیات نا اہلی آئینی طور پر درست نہیں تھی، آج سپریم کورٹ نے برسوں بعد ملک کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ہے۔

اٹارنی جنرل نے تا حیات نا اہلی کیس سے متعلق فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ 184 تھری، ہائیکورٹ199 کے تحت آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلیئریشن نہیں دے سکتیں۔  انہو ں نے کہا کہ قانون میں درج نہیں ہے کہ کون سی عدالت آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ڈکلیئریشن دے سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp