ماں کو محبوب بنانے والے شاعر ’منور رانا‘ دنیا چھوڑ گئے

پیر 15 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لفظوں کے جادوگر، اردو کے لیجنڈ شاعر منور رانا 71 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے گزشتہ شب لکھنؤ کے پی جی آئی اسپتال میں انتقال کر گئے۔ بھارتی نیوز چینل ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق وہ گزشتہ کئی ماہ سے زیرِ علاج اور دل کے امراض میں مبتلا تھے۔

منور رانا کی بیٹی سمیعہ رانا کے مطابق ان کے والد گزشتہ روز (اتوار کی شب) انتقال کرگئے، ان کی تدفین آج (سوموار) کی جائے گی۔ مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ، بیٹا اور 4 بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔

منور رانا 26 نومبر 1952 کو رائے بریلی، اتر پردیش میں پیدا ہوئے، انہیں اردو ادب اور شاعری، خاص طور پر ان کی غزلوں کے لیے بڑے پیمانے پر پہچانا جاتا تھا۔ منور رانا کی نظم ’ماں‘ کو اُن کی مشہور نظموں میں شمار کیا جاتا ہے، اُن کی نظم ’شہدابہ‘ کے لیے 2014 میں انہیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا، تاہم انہوں نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر احتجاجاً ایوارڈ واپس کردیا تھا۔

منور رانا کا اصل نام سید منور علی ہے۔ ان کے والد کا نام سید انور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون ہے۔ منور رانا نے ابتدائی تعلیم رائے بریلی سے حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے انہیں لکھنؤ بھیج دیا گیا، جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہوا۔

لکھنؤ کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں پختہ کیں۔ ان کے والد نے، جو روزگار کے لیے کلکتہ منتقل ہوگئے تھے، انہیں 1968 میں کلکتہ بلا لیا، جہاں انھوں نے محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اور گریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ کے ہی امیش چندرا کالج میں بی کام کے لیے داخلہ لے لیا۔

منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے میں لکھنؤ کے ماحول کے علاوہ خاص طور پر ان کے ادب نواز دادا مرحوم سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہد طفلی میں دوسروں کی غزلیں باقاعدہ پڑھوایا کرتے تھے تاکہ ادب میں ان کی دلچسپی بڑھے اور انہیں تحریک ملے، جس نے آگے چل کر حقیقت کی شکل اختیار کرلی۔ اسی ریاضت کا ثمرہ ہے کہ منور رانا کو ہزاروں اشعار ازبر تھے۔

زمانۂ طالب علمی سے ہی فلم اور شاعری ان کی کمزوری رہی تھی۔ لیکن عہد شباب میں اپنے مزاج کی ناہمواری کے باعث ان کی آنکھیں فلمی دنیا کی مصنوعی چمک دمک سے چکاچوند ہوگئیں اور وہ فلم کی طرف مائل ہوگئے۔ منور رانا نے کچھ افسانے اور کہانیاں بھی لکھیں جو مختلف مقامی اخبارات میں شائع ہوئیں۔

فلم اور ڈرامہ نویسی، ہدایت کاری اور اداکاری سے دل بھر گیا تو شاعری کی زندہ روایات کا مستحکم عزم لے میدان شاعری میں آگئے اور اس فن میں غزل کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ سید منور علی نے خود کو 1969-70 میں قلبی واردات، احساسات اور جذبات کی چنگاری سے ’منورعلی آتش‘ بن کر متعارف کرایا۔

میدان شعروسخن کے ابتدائی دنوں میں وہ پروفیسر اعزازؔ افضل کے حلقۂ تلمذ میں شامل ہوئے اور ان سے اکتساب فیض کرتے ہوئے اپنی شعلہ بیانی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اگرچہ انہوں نے پہلی نظم 16ویں سال میں کہی تھی جو اسکول کے مجلے میں چھپی لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق 1972 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’شہود‘ میں شائع ہوئی۔

منور رانا نے نازش پرتاپ گڑھی اور رازؔ الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدلا اور ’منور علی شاداں‘ بن کر غزلیں کہنے لگے۔ لیکن جب والی آسیؔ سے شرف تلمذ حاصل کیا تو ان کے مشورے سے 1977 میں ایک مرتبہ پھر اپنا تخلص بدلا اور ’منورؔ رانا‘ بن گئے۔ سید منور علی کو منور علی آتش سے منور علی شاداںؔ اور پھر منور رانا بننے میں 9 برس کا عرصہ لگ گیا۔ پھر انہوں نے اپنی پروازِ فکر کو اوج کمال تک پہنچایا۔

منور رانا اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی شاندار تصنیفات ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہیں گی۔ آئیے اردو کے اس عظیم شاعر کو یاد کرتے ہوئے ان کی کچھ منتخب اشعار پر نظر  ڈالتے ہیں:

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے


کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی


اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے


برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر

ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے


جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے

ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے


ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا

میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp