عدالت سے انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا، تحریک انصاف نے لیول پلیئنگ فیلڈ کی درخواست واپس لے لی

پیر 15 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں دائر عام انتخابات کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق اپنی درخواست واپس لے لی ہے،

عام انتخابات میں لیول پلئینگ فیلڈ فراہم کرنے سے متعلق توہین عدالت  کی درخواست کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔

پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں الیکشن کمیشن سے کوئی توقع نہیں، پی ٹی آئی کو مختلف انتخابی نشانات دیے گئے، ساری پارٹی کو تتر بتر کر دیا گیا ہے، اب ہم عوام کے پاس جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ ہمیں بھی بولنے کی اجازت دیں، دوسرے کیس کی بات اس کیس میں کرنا مناسب نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی، تحریک انصاف کا شیرازہ ہی بکھیر دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، ایک جماعت کو پارلیمنٹ سے باہر کرکے پابند کیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گے اور کنفیوژن کا شکار ہوں گے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے لطیف کھوسہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ انتخابات بالکل غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کے لیے خون دیا، قربانیاں دیں، انصاف کی توقع تھی، لیکن عدالت سے انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا، اپنی درخواست واپس لیتے ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ آپ نے عدالتی فیصلہ تسلیم کرنا ہے کریں نہیں کرنا نہ کریں، ہم نے قانون و انصاف کے مطابق معاملات کو آگے بڑھایا، اگر آپ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں تو ہم کچھ نہیں کرسکتے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی، جس پر چیف جسٹس بولے؛ بارہا کہا کہ انٹراپارٹی انتخابات کا ہونا دکھا دیں، آپ کو فیصلہ پسند نہیں تو کچھ نہیں کر سکتے، لیول پلیئنگ فیلڈ پر ہم نے حکم جاری کیا تھا، عدالت حکم دے سکتی ہے حکومت نہیں بن سکتی، بیرسٹر گوہر کے معاملے پر پولیس اہلکار معطل ہوگئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا کام انتخابات قانون کے مطابق کروانا ہے، الیکشن کا معاملہ ہم نے اٹھایا، پی ٹی آئی کی درخواست پر 12 دن میں تاریخ مقرر کی، الیکشن کمیشن کہتا رہا پارٹی انتخابات کرائیں لیکن نہیں کرائے گئے، کسی اور سیاسی جماعت پر اعتراض ہے تو درخواست لے آئیں۔

عدالت نے تحریک انصاف کی جانب سے سے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر درخواست کو نمٹا دیا۔

لطیف کھوسہ کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے دوران پی ٹی آئی امیدواروں کو گرفتار کر لیا جاتا تھا، یہ عمل 20 سے 24 دسمبر تک  جاری رہا، ملک میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھ 25 سے 30 دسمبر کے دوران  کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی کے دوران بھی یہی کچھ چلتا رہا، ان کے کاغذات نامزدگی کو پھاڑا اور ان پر تشدد کیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایم پی او لگا کر تحریک انصاف کے امیدواروں کو گرفتار کیا گیا، ڈپٹی کمشنرز کے خالی پرفاموں پر تحریک انصاف کے امیدوار کا صرف نام لکھ کر اسے گرفتار کرلیا جاتا تھا، امیدواروں کو ایک مہینے کے لیے ایم پی او کے تحت نظر بند کیا جاتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو جلسے جلوس نہیں کرنے دیے گئے، جو پی ٹی آئی رہنما جلسہ کرنے کی کوشش کرتا اس کے گھر کو اڑا دیتے ہیں، مسمار کر دیتے ہیں، اس کا کاروبار بند کردیتے ہیں اور اغوا کرکے اس کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے،ہم نے رٹ دائر کر کے کئی امیدواروں کی جان چھڑائی۔

’اس کے بعد ہم سپریم کورٹ میں گئے کہ آپ نے کیسا حکم دیا تھا 22 دسمبر 2023 کو کہ سب کو شفاف الیکشن اور لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے، ہم سپریم کورٹ میں گئے تو ہمیں کہا گیا کہ آئی جی اور چیف سیکریٹری اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بلائیں، یہ لوگ آئے اور کہا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں، کوئی بدمزگی نہیں ہوئی، یعنی اس سے بڑا مذاق کیا ہوسکتا ہے کہ میرے بیٹے کو گرفتار کر لے پابندسلال کیا گیا جو سپریم کورٹ کا وکیل بھی ہے۔‘

لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کے بعد ہمیں بلے کا نشان بھی نہیں دیا گیا، الیکشن کمیشن اتنا بددیانت اور بدنیت ہے کہ عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جیل میں جاکر دیتے ہیں، عین الیکشن کے موقع پر تحریک انصاف سے نشان چھین لیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 20 دن میں الیکشن کروائے ہیں، 13 لوگ پی ٹی آئی کے ممبرز ہی نہیں ہیں، انہوں نے جھوٹ بولا، اکبرایس بابر عمران خان کے ادنی سے کارکن کے برابر بھی نہیں ہیں، دوسری جماعتوں کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوتا، کیا بلاول بھٹو، آصف علی زرداری یا نواز شریف کے مقابلے میں کسی پارٹی کارکن نے الیکشن لڑنا چاہا۔

’چیف جسٹس سے یہی عرض کیا ہے کہ کیا یہی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے کہ ایک جماعت کو نشان ملا ہوا تھا، آپ نے ساڑھے 12 بجے نشان واپس لے لیا، الیکشن کمیشن نے ہمارے امیدواروں کو آزاد تصور کرتے ہوئے کسی کو مور دے دیا، کسی کو فاختہ دے دی، کسی کو گھڑیا دے دیا، پی ٹی آئی کو 230 مخصوص نشستوں سے محروم کیا گیا۔‘

لطیف کھوسہ نے کہا کہ جو ہم نے الیکٹورل الائنس کیا تھا کہ ہم الیکشن پی ٹی آئی نظریاتی کے ساتھ مل کرالیکشن لڑیں گے، جس نے تحریک انصاف کے ساتھ معاہدہ بھی کرلیا تھا، اس کے بعد پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین کو اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر اس کو ٹی وی پر لاکر بیان دلوایا جاتا ہے کہ اس نے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس آرٹیکل 187 کے اختیارات ہیں، اگر وہ اس ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو وہ اس آرٹیکل کا استعمال کریں، چیف جسٹس نے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی تھی تو انہوں نے ہم نے فیلڈ کی چھین لی ہے، اس لیے ہم اپنی درخواست واپس لے رہے ہیں، ہم 25 کروڑ عوام کی عدالت میں جارہے ہیں، ہمارا جو بھی نشان ہوگا وہ ہمیں 8 فروری کو کامیاب کروائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp