لاہور کا حلقہ این اے 128 ماڈل ٹاؤن، علامہ اقبال ٹاؤن، برکت مارکیٹ، گارڈن ٹاؤن، جیون ہانہ، گلبرگ اور جوہر ٹاؤن کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے، اس حلقے سے 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہوئی تھی، اس وقت تحریک انصاف کے امیدوار شفقت محمود تھے جبکہ صوبائی نشستوں پر میاں محمودالرشید اور مراد راس تھے، ان رہنماؤں نے بلے کے نشان پر یہ انتخابات لڑے اور کامیاب ہوئے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سنیئر تجزیہ نگار ماجد نظامی نے بتایا کہ لاہور کا حلقہ این اے 128 مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے، ماڈل ٹاؤن میں شریف خاندان رہائش پذیر ہے، پارٹی کا مرکزی سیکریٹریٹ بھی ماڈل ٹاؤن میں ہے لیکن اس کے باوجود ن لیگ یہاں سے 2 مرتبہ الیکشن ہار چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سے ن لیگ کے الیکشن ہارنے کی 3 وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں پر مڈل کلاس ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے جو پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری وجہ یہ کہ ن لیگ اس حلقے سے پہلے بھی ایک کمزور امیدوار خواجہ احمد احسان کو آزما چکی ہے، خواجہ احمد احسان تھوڑا بہت ن لیگ کا ووٹ تو لے لیتے تھے مگر اس حلقے میں ان کا اپنا ووٹ بینک نہیں تھا، اس لیے وہ کامیاب نہیں ہوتے تھے۔
ماجد نظامی نے نواز شریف یا شریف خاندان کے کسی فرد کی اس حلقے میں نمائندگی نہ ہونے کو تیسری بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ گھر کی سیٹ ہے، یہاں پر شہباز شریف، حمزہ شہباز، نواز شریف یا مریم نواز کو الیکشن لڑنا چاہیے تھا اور اس سیٹ کو بچانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایک کمزور امیدوار اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے چکر میں عون چوہدری کو یہاں سے ٹکٹ دے دیا، عون چوہدری پہلی بار الیکشن لڑنے جارہے ہیں، عوام انہیں کس نظر سے دیکھتی ہے، یہ تو 8 فروری کو ہی پتہ چلے گا۔
ن لیگ نے عون چوہدری کو ٹکٹ کیوں دیا؟
ماجد نظامی کے مطابق حلقہ این اے 128 سے ن لیگ گزشتہ 2 عام انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئی اس لیے عون چوہدری کو اس حلقے میں قسمت آزمائی کا موقع دیا گیا، لیکن سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ عون چوہدری استحکام پاکستان پارٹی کے امیدوار ہیں اور انہوں نے اپنے پوسٹرز پر اپنی پارٹی کے سربراہان کی تصاویر لگانے کے بجائے نواز شریف کی تصویر لگائی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ اپنی پارٹی کے انتخابی نشان عقاب کے بجائے شیر کا نشان اپنے بینرز پر لگایا ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حلقے میں جہانگیر ترین اور علیم خان کا بالکل ووٹ بینک نہیں ہے۔
Related Posts
انہوں نے کہا کہ اس حلقے سے پی ٹی آئی کے سلمان اکرام راجہ بہتر امیدوار ہیں، اگرچہ ان کے پاس بلے کا نشان نہیں ہے لیکن یہاں پر ووٹرز پڑھے لکھے ہیں اور انہیں جو بھی نشان بتایا جائے گا وہ اپنا حق رائے دہی اسی نشان پر استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس حلقے میں پڑھے لکھے ووٹرز ہونے کی وجہ سے ن لیگ اپنے گڑھ سے الیکشن ہارتی رہی، اس حلقے میں عون چوہدری اور سلمان اکرم راجہ دونوں نئے امیدوار ہیں اور بظاہر سلمان اکرم راجہ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن 8 فروری کو پتہ چلے گا کہ عوام نے کس کو اس حلقے سے اپنا لیڈر منتخب کیا ہے۔
عون چوہدری کو ن لیگ کے دھڑے سپورٹ نہیں کر رہے
ماجد نظامی کے مطابق اس حلقے میں ن لیگ کے بہت سے دھڑے ہیں مگر بیشتر دھڑے عون چوہدری کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے سید توصیف شاہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہیں حمزہ شہباز کا قریبی آدمی سمجھا جاتا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز نے توصیف شاہ کو یہاں سے ٹکٹ نہیں لینے دیا، سید توصیف شاہ اب گھر بیٹھے ہیں اور اپنے حلقے میں عون چوہدری کی حمایت نہیں کر رہے۔
ماجد نظامی کا مزید کہنا تھا کہ جس وقت 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوا تھا تو تحریک انصاف کے منحرف رہنماؤں کو ن لیگ نے ٹکٹ دیا تھا مگر وہ تقریباً سب ہی الیکشن ہار گئے تھے، اس وقت بھی ن لیگ کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ چونکہ یہ پی ٹی آئی کے منحرف لوگ تھے اور پارٹی نے وعدے کے مطابق انہیں ٹکٹس دیے تھے لیکن پارٹی کے لوگوں نے ان منحرف رہنماؤں کو اپنے اپنے حلقوں میں سپورٹ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا اسی طرح کی صورتحال اب بھی پیدا ہو سکتی ہے، انتخابات میں اب کچھ ہی دن باقی ہیں، الیکشن میں بلے کا نشان بھی نہیں ہے، عون چوہدری اگر بہتر انداز سے انتخابی مہم چلانے اور الیکشن کے دن کی حمکت عملی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر اس حلقے میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا، لیکن اگر وہ کسی بیرونی امداد کے چکر میں رہے تو ن لیگ یہ سیٹ گنوا بھی سکتی ہے۔ ماجد نظامی نے کہا کہ یہاں سے جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ بھی میدان میں ہیں، وہ ہمیشہ یہاں سے سیٹ ہارتے آئے ہیں اور ان کے خیال میں وہ اس بار بھی تیسرے نمبر کے امیدوار ہیں۔