’بلے‘ کا نشان چھِن جانے سے کیا تحریک انصاف بطور پارٹی ختم ہوگئی؟

منگل 16 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر تحریک انصاف سے انتخابی نشان بلا واپس لے لیا ہے جس کے بعد ان کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

13 جنوری کے سپریم کورٹ فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حیثیت کیا ہے، اور کیا وہ بطور سیاسی جماعت اپنا وجود برقرار رکھتی ہے؟

انتخابی نشان چھن جانے کی صورت میں کیا پارٹی ڈی لسٹ یا الیکشن کمیشن کی فہرست سے خارج ہو گئی ہے؟ ان سوالوں کے جوابات کے لیے ہم نے آئینی و قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔

واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو بلے کا نشان الاٹ کیے جانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل سپریم کورٹ نے منظور کر لی تھی جس سے پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم ہو گئی۔

بلے کا نشان چھن جانے سے پی ٹی آئی ختم نہیں ہوئی، کامران مرتضیٰ

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان کا چھن جانا انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کا ایک نتیجہ یا سزا تھی جو دے دی گئی۔ لیکن اس سے پارٹی کا وجود ختم ہوا نا ہی وہ ڈی لسٹ ہوئی۔

انہوں نے کہاکہ الیکشن ایکٹ کی شق 215 میں لکھا ہوا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے کی سزا کیا ہے۔ اگر ایک بار الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات کروانے کے لیے کہا جائے اور وہ نہ مانے تو اسے جرمانہ کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے احکامات کی مسلسل خلاف ورزی کی اور سزا کے طور پر انتخابی نشان سے محروم ہو گئی۔

انہوں نے کہاکہ اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف بطور ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کے اپنا وجود رکھتی ہے اور اس کو سارے حقوق بھی حاصل رہیں گے۔

حکومت سیاسی جماعت کو ختم کر سکتی ہے مگر پی ٹی آئی کے ساتھ ایسے نہیں کیا گیا، عرفان قادر

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھن جانے سے پارٹی ختم نہیں ہوئی۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت ختم کر سکتی ہے جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نہیں کیا گیا۔

بلے کا نشان نہ ہونے سے پی ٹی آئی کو صرف مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں گی، عمران شفیق

سینیئر وکیل عمران شفیق نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف الیکشن کمیشن میں اسی طرح سے رجسٹرڈ ہے جیسے پہلے تھی۔ اور بطور سیاسی جماعت اس کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ انتخابی نشان نہ ہونے سے پی ٹی آئی کو صرف ایک ہی نقصان ہو گا کہ اسے مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔

انہوں نے کہاکہ کسی پارٹی پر پابندی یا اسے کالعدم کرنے کے حوالے سے پورا قانون موجود ہے، اس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی سیاسی جماعت کے خلاف شکایات کی صورت میں ایک ریفرنس تیار کر کے سپریم کورٹ کو بھجواتا ہے۔ سپریم کورٹ اس ریفرنس کا جائزہ لینے کے بعد وفاقی حکومت کو اس سیاسی جماعت پر پابندی کی سفارش کرتی ہے جس پر وفاقی حکومت ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اس سیاسی جماعت پر پابندی لگاتی ہے۔

’پاکستان تحریک انصاف سے تو صرف انتخابی نشان واپس لیا گیا ہے اور اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں جیت کر پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں لیکن اس وقت پھر پارٹی کی مخصوص نشستوں کا سوال پیدا ہو جائے گا‘۔

سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہو تو الیکشن کمیشن ریفرنس دائر کرتا ہے، احمد حسن

ایڈووکیٹ احمد حسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عام انتخابات کے لیے جو بیلٹ پیپرز چھاپے جاتے ہیں ان میں سیاسی جماعت کا نام نہیں لکھا ہوتا۔ ان میں امیدوار اور اس کے آگے انتخابی نشان ہوتا ہے جس پر ووٹر مہر لگاتے ہیں۔ اب پی ٹی آئی ووٹرز کو بیلٹ پیپر میں تلاش کرنا پڑے گا کہ ان کے حلقے میں پی ٹی آئی امیدوار کو کونسا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔

ایڈووکیٹ احمد حسن نے کہاکہ سیاسی جماعت بنانا آئینی حق ہوتا ہے اور کسی سیاسی جماعت پر پابندی کی ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ریفرنس دائر کیا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان کی واپسی سے پی ٹی آئی کا وجود ختم نہیں ہوا بلکہ یہ صرف انہیں انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے کی سزا دی گئی ہے اور انتخابات کے بعد وہ مخصوص نشستوں اور اس سے جڑے دیگر معاملات کے لیے عدالتوں میں جا سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp