پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے اس کی پہچان بلے کا انتخابی نشان چھن جانے سے جہاں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے پر مجبور پارٹی کے دیگر امیدوار پریشان ہیں وہیں ضلع اپر چترال کے صوبائی اسمبلی حلقے پی کے 1 سے میدان میں اترنے والی ثریا بی بی بھی فکرمند ہیں۔
ثریا بی بی کو انتخابی نشان مرغی الاٹ کی گئی ہے جبکہ ان کی پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے حلقے کا ہر ایک چھوٹا بڑا بلے کے نشان کو خوب پہچانتا تھا کہ اس کا مطلب کپتان ہے لیکن اب ان کے ووٹرز کے بارے میں انہیں شدید خدشہ ہے کہ وہ پولنگ بوتھ میں بلے کا نشان نہ پاکر کنفویژن کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ کہ وہ کہاں تک مرغی کے سمبل سے مانوس کر پائیں گی۔
شٹل کاک بنا بلا بالآخر پی ٹی آئی کے ہاتھ سے جاتا رہا
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کے نتائج کو مسترد کردیا تھا جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی بلے کے نشان سے محروم ہوگئی تھی۔ پی ٹی آئی نے فیصلے کو پشاور ہائئ کورٹ میں چیلنچ کیا اور فیصلے کو کالعدم کرانے میں کامیاب ہو گئی لیکن سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور اس طرح شٹل کاک بنا بلا فی الحال پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے تو جاتا رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی نے اپنے امیدواروں کو الگ الگ نشانات کے ذریعے انتخابات میں اتارا ہے جس سے پارٹی کا ووٹ بینک متاثر ہونے کا خدشہ بہرحال اپنی جگہ ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ثریا بی بی کا کہنا ہے کہ بلے کے نشان واپس لینا ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو تحریک انصاف کے ووٹرز کو کنفیوز کرنے کے لیے رچی گئی اور جس کے بعد اب امیدواروں اور ورکرز کو بہت زیادہ محنت کی ضرورت پڑے گی۔
’ورکرز اور سوشل میڈیا ٹیم کا عمدہ کردار، ووٹرز اب مرغی کا نشان پہچاننے لگے‘
ثریا بی بی نے 10 گھنٹے کی مسافت کے بعد یارخون کے علاقے سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کے مطابق سخت موسم اور برف باری کے باعث دورافتادہ علاقوں تک جانا کسی آزمائش سے کم نہیں لیکن مشکلات کے باوجود بھی انہوں نے مہم کا آغاز سب سے دورافتادہ اور سرد ترین علاقے سے ہی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں جب یہاں خواتین سے ملی تو وہ بہت خوش ہوئیں اور میرا پرجوش استقبال کیا‘۔
آزاد امیدوار کے بھیس میں پی ٹی آئی کی کینڈیڈیٹ کے مطابق بلے کا نشان واپس لینے سے انہیں نقصان ہوا ہے لیکن ورکرز اور سوشل میڈیا ٹیم اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے ورکرز پہلے دن سے ہی سرگرم ہیں اور گھر گھر انتخابی نشان کے حوالے سے اگاہی دے رہے ہیں اور اب ہم جہاں بھی جاتے ہیں انتخابی نشان کے حوالے سے ووٹرز خود بتاتے ہیں‘۔
ثریا بی بی نے بتایا سوشل میڈیا پر بھی الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔’ہماری ترجیح سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بآسانی گھر گھر پیغام پہنچا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
پی ٹی آئی کے ووٹرز کیا کہتے ہیں؟
الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کا معروف انتخابی نشان واپس لینے کے بعد ووٹرز بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔
اپر چترال کے دورفتادہ علاقے کے رہائشی 50 سالہ بی بی جمال گھریلو خاتون ہیں۔ پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں انتخابی نشان واپس لینے کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ انہیں تو بس عمران خان اور بلے کا نشان یاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘بیٹ عمران خان کی علامت ہے اور میں بلے کو ہی ووٹ دوں گی‘۔
جمال بی بی اور دیگر گھریلو خواتین اور عمررسیدہ ووٹرز کو انتخابی نشان کے حوالے سے اگاہی دینے کے لیے پی ٹی آئی ورکرز اور امیدوار گھر گھر مہم چلا رہے ہیں تاکہ پارٹی ووٹ بینک متاثر نہ ہو کیونکہ جمال بی بی اور دیگر ووٹرز کو پارٹی امیدواروں کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ہاں بلے کا نشان انہیں خوب اچھی طرح یاد ہے۔
55 سالہ شریف خان بھی انتخابی نشان کے حوالے سے کلیئر نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ووٹ وہ ان ہی کو دیں گے جنہیں عمران خان نے نامزد کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا ووٹ صرف عمران خان کا ہے‘۔
پی ٹی آئی کے سرگرم کارکن رشید علی پارٹی امیدواروں کے لیے اپنے گاؤں میں گھر گھر مہم چلا رہا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نوجوان ووٹرز کو پہلے سے صورتحال کا پتا ہے اور وہ پارٹی امیدوار اور انتخابی نشان کے حوالے سے بخوبی واقف بھی ہیں جبکہ گھریلو خواتین اور عمررسیدہ افراد کو سمجھانا کافی مشکل ہوگا۔
رشید کا کہنا تھا کہ گھریلو خواتین اور عمررسیدہ افراد نام نہیں پڑھ سکتے اس لیے انہیں انتخابی نشان کے حوالے سے بتانا ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی کوشش ہے کہ گھر گھر اگاہی دیں کیوں کہ ووٹرز کو اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے۔
بلے بغیر ووٹ بینک پر کوئی اثر پڑے گا؟
بلے کے نشان سے محرومی کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار اور کارکنان کافی پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق ہر عمر کے ووٹرز بلے کے نشان سے واقف تھے لیکن اب ان مختلف سمبلز کی وجہ سے کنفیوژن ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار عارف حیات کا خیال ہے کہ بلے کے بغیر الیکشن پی ٹی آئی کے لیے مشکل ہوگا جبکہ سابق میئر اور پشاور سے تحریک انصاف کے امیدوار عاصم خان کا مؤقف ہے کہ نشان سے فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ ووٹرز عمران خان کے ساتھ ہیں۔
عاصم خان نے وی نیوز کو بتایا کہ انتخابی نشان الاٹ ہوئے صرف دو تین دن ہو ئے ہیں اور سب انتخابی نشان سے واقف ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ انتخابات کی وجہ سے ووٹرز بلے کے نشان سے واقف ہو گئے تھے لیکن اس کے بغیر بھی ان کی پارٹی میدان مار لے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’ووٹ نشان یا امیدوار کا نہیں ہے بلکہ عمران خان کا ہے اور جو پارٹی کا نامزد امیدوار ہے ووٹ اسی کو ہی پڑے گا‘۔
تحریک انصاف کی حکمت عملی
پی ٹی آئی رہنما عاصم خان کا کہنا ہے کہ پارٹی نے ہر قسم کے حالات سے نکلنے کے لیے پلان تشکیل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں اور ایک ایک ووٹر تک پیغام پہنچا رہے ہیں۔
عاصم خان نے بتایا کہ پارٹی ورکرز خصوصاً خواتین بہت سرگرم ہیں اور وہ خواتین ووٹرز کے لیے گھر گھر جاکر انہیں نشان اور امیدوار ذہن نشین کروارہی ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ کچھ امیدوار نظریاتی کا نام استعمال کر رہے ہیں جو الگ پارٹی ہے اور پی ٹی آئی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ امیدوار عمران خان کا نام استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سے ووٹ بینک پر کوئی اثر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سوشل میڈیا، ویب پر امیدواروں کا نام جاری کیا ہے تاکہ سب کو پتا چل جائے اکہ ووٹ صرف انہی امیدواروں کو دینا ہے اور یہ کہ انہیں عمران خان کی حمایت حاصل ہے‘۔
عاصم خان نے دعویٰ کیا کہ بلے کا نشان واپس لے کر پی ٹی آئی ووٹ بینک کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ منصوبہ مکمل طور پر فلاپ ہو گیا۔ وہ پارٹی کی جیت کے لیے تو یکسو ہیں لیکن ایک دھڑکا انہیں ضرور لگا ہوا ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘مجھے خدشہ ہے کہ انتخابات کہیں تاخیر کا شکار نہ ہو جائیں‘۔