پاکستانی بچے ذیابطیس کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟

بدھ 17 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’ ہم حسن کو کہتے ہیں کہ یار تم تو سپر ہیرو ہو، تمہاری پاور چیک کرنے کے لیے بلڈ لیا جاتا ہے، مگر ظاہر ہے وہ چھوٹا ہے اسے درد تو ہوتا ہے اور وہ روتا بھی ہے، انسولین لگانے پر اتنا نہیں لیکن جب بھی ٹیسٹ ہوتے ہیں تو بڑی سرنج کے استعمال پر رو پڑتا ہے۔‘

4 سالہ حسن گلزار گزشتہ 2 برسوں سے ٹائپ ون ذیابطیس کا شکار ہے، حسن کے والد ثمر گلزار وی نیوز کو بتایا کہ انہیں اس چیز کا علم بالکل نہیں تھا کہ اس نام کی کوئی بیماری بچوں میں بھی پائی جاتی ہے، یہی وجہ تھی کہ جب حسن میں ذیابطیس تشخیص ہوئی تو وہ لمحہ ان کے لیے کافی حیران کن تھا۔

طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹائپ ون ذیابطیس کے مرض میں مبتلا بچوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے جن میں سے سینکڑوں بچے ہر سال تاخیر سے تشخیص اور انسولین نہ ملنے کے سبب جاں بحق ہو جاتے ہیں۔

اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ سینکڑوں بچوں کی اموات کے پیچھے ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے اس مرض کی بروقت تشخیص نہیں ہو پاتی کیونکہ ہماری سوسائٹی میں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بچوں کو کیسے شوگر ہو سکتی ہے۔

’ذیابطس سے متاثرہ بچوں کی ڈائٹ کا خیال رکھنا، کب کیا دینا ہے، کتنے بجے انسولین لگانی ہے، یہ سب چیزیں ماؤں کو دیکھنا ہوتی ہیں، جو کسی چلینج سے کم نہیں۔‘ (فائل فوٹو)

ثمر گلزار کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کے بیٹے کو شوگر بھی ہو سکتی ہے، حالانکہ اسے پیاس بہت لگتی تھی، وہ رات میں اٹھتا تھا، اور پانی مانگتا تھا اور جب اسے پانی دیا جاتا تھا تو وہ ایک سانس میں پانی پی لیتا تھا، اور پھر وہ باتھ روم بھی بہت جاتا تھا۔

’ایک بار چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس جانا ہوا، تو ڈاکٹر نے بتایا کہ رات کے اوقات لڑکوں میں زیادہ پیشاب کرنا عام بات نہیں ہے، اس کا ٹیسٹ کروائیں، جس کے بعد ایچ بی اے 1 سی کا ٹیسٹ ہوا تو ہمیں معلوم ہوا کہ حسن کو شوگر ہے۔‘

ابتدا میں جب حسن کی شوگر چیک کی جاتی تو تو مشین غلطی کرجاتی تھی اور ایسا اسی صورت میں ممکن تھا جب شوگر لیول 600 سے زیادہ ہو۔ ’اس وقت میں اکثر سب کے سامنے بھی اور اکثر اکیلے میں بھی رو دیا کرتا تھا کہ شاید میں حسن کو کھو دوں گا، اس طرح کے عجیب اور غلط خیال آیا کرتے تھے۔‘

والدین کی مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ثمر گلزار  کا کہنا تھا کہ والدین کے لیے یقیناً ایک بہت مشکل وقت ہوتا ہے، خاص طور پر ماؤں کے لیے کیوںکہ وہ پورا دن بچے کے ساتھ رہتی ہیں۔ ’ذیابطس سے متاثرہ بچوں کے کھانے اور انسولین کا ایک مقرر وقت ہوتا ہے، ان کی ڈائٹ کا خیال رکھنا، کب کیا دینا ہے، کتنے بجے انسولین لگانی ہے، یہ سب چیزیں ماؤں کو دیکھنا ہوتی ہیں، جو کسی چیلنج سے کم نہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں ثمر گلزار نے بتایا کہ اکثر شوگر لیول زیادہ اور اسی طرح خطرناک حد تک کم ہونا اس مرض میں مبتلا مریضوں کی 2 مختلف انتہائیں ہیں جن میں فوری مدد کے بغیر معاملہ بگڑنے کا خدشہ درپیش ہوسکتا ہے۔

’شوگر زیادہ ہونے پر یعنی ہائپر شوگر کی صورت میں بچہ چیخنے لگتا ہے، چڑچڑا ہو جاتا ہے جبکہ کم ہونے یعنی ہائیپو شوگر کی صورت میں بچہ نڈھال اور غنودگی میں رہنے لگتا ہے، ایسی صورت میں بے ہوشی سے بھی دوچار ہوسکتا ہے۔۔۔کسی صورت انسولین میں وقفہ نہیں آنا چاہیے، اسے مقررہ وقت کے مطابق ہی لگنا چاہیے۔‘

والدین کے مطابق تمام کاروبارِ زندگی ایک طرف لیکن بچے کی انسولین اور ڈائٹ میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے، کسی بھی سفر کی صورت میں لنچ باکس خاص طور پر تیار کرنا اور پانی کے ساتھ جوس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے کیونکہ اگر کھانے اور انسولین کا وقت ہو گیا ہے تو پھر کھانا بھی کھائیں گے اور انسولین بھی لگے گی۔

بین الاقوامی ذیابطیس فیڈریشن کے مطابق دنیا بھر میں ٹائپ 1 ذیابیطس میں مبتلا بچوں اور نوعمروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

’۔۔۔ورنہ شوگر لیول اوپر نیچے ہو جاتے ہیں، یہ بہت عام ہے ذیابطیس کے مریضوں میں، لیکن احتیاط بہت ضروری ہے اور یہ سب سنبھالنا اتنا آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر بچے میں مرض کی تشخیص کی ابتدا میں، مگر اب عادت ہو چکی ہے۔‘

ثمر گلزار کے مطابق سب سے تکلیف دہ مرحلہ بیٹے حسن گلزار کو انسولین لگانے کا ہوتا ہے۔ ’شروع میں جب اسے انسولین لگتی تھی تو ظاہر ہے وہ روتا تھا، اب تو وہ بھی عادی ہو چکا ہے، لیکن جہاں انسولین لگتی ہے وہ جگہ سوج جاتی ہے، دن میں پانچ پار انسولین لگانا آسان نہیں ہوتا، کبھی بازو پر لگ رہی ہے، کبھی پیٹ پر، کافی تکلیف دہ ہوجاتا ہے یہ سب، میں کوشش کرتا ہوں کہ انسولین نہ ہی لگاؤں اسے، اور اگر لگاتا ہوں تو اب بھی اکثر ہاتھ کاپنے لگ جاتے ہیں۔‘

بین الاقوامی ذیابطیس فیڈریشن کے مطابق دنیا بھر میں ٹائپ 1 ذیابیطس میں مبتلا بچوں اور نوعمروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، 2021 تک دنیا بھر میں 12 لاکھ سے زائد بچے اور نوعمر ٹائپ 1 ذیابطیس میں مبتلا تھے، جن میں سے نصف سے زائد کی عمر 15 سال سے کم ہے۔

ٹائپ 1 ذیابطیس کیا ہے؟

اینڈوکرائنولوجسٹ ڈاکٹر شاہد کے مطابق شوگر کی بیماری جسم میں گلوکوز لیول ایک خاص حد تک بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتی ہے جس کی نوعیت 2 طرح کی ہوتی ہے، ایک کو ٹائپ ون ذیابطیس جبکہ دوسری کو ٹائپ 2 ذیابطیس کہا جاتا ہے۔ بلڈ گلوکوز کی زیادتی کی صورت میں لبلبہ ہمارے جسم میں ہارمون ریلیز کرتا ہے اور انسولین کو سیل میں ڈال کر ہمیں نہ صرف توانائی مہیا کرتا ہے بلکہ اور خون میں جو گلوکوز کا لیول ہے اسے ایک خاص حد تک نارمل بھی رکھتا ہے۔

لیکن ٹائپ 1 ذیابطیس میں انسولین بنتی ہی نہیں ہے، کیونکہ لبلبہ اس قابل ہی نہیں ہوتا، بچوں میں موٹاپا ذیابطیس کا سبب بن سکتا ہے۔ اور بچوں میں ٹائپ 1 ذیابطیس اب عام بات ہوتی جا رہی ہے۔ ’اسے نہ تو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی موثر علاج ہے، اس کا علاج صرف احتیاط ہی ہے۔ کیونکہ یہ جینٹک اور آٹو امیون ہے۔‘

طبی ماہرین کے مطابق ذیابطیس کے سلسلے میں احتیاط کے حوالے سے سر فہرست جمسانی سرگرمیاں ہیں، تاکہ ان کی ورزش ہو، کیونکہ آجکل کے بچے آپنا زیادہ وقت اسکرین پر صرف کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی جسمانی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔

’بچوں کا یہ طرزِ زندگی انہیں بہت سی بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے اور موٹاپا وہ چیز ہے جس سے اب بچے ٹائپ 2 ذیابطیس کا شکار بھی ہو رہے ہیں، اس لیے بچوں کو جنک فوڈ سے دور رکھیں۔‘

ٹائپ 1 ذیابطیس کے حوالے سے اینڈوکرائنولوجسٹ ڈاکٹر شاہد نے مزید بتایا کہ ذیابطیس کے ساتھ جسم میں کچھ اور بھی پیچیدگیاں وقت کے ساتھ دیکھنے میں آتی ہیں، اگر بچے کا وزن زیادہ ہو تو کولیسٹرول بھی بڑھتا ہے جس کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر اور اسٹروک کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں، اس کے علاوہ گردوں پر بھی اس بیماری کا اثر پڑ سکتا ہے اور مریض کی بینائی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔

ٹائپ 1 ذیابطیس میں مبتلا افراد کو روزانہ انسولین کے انجیکشنز لگانا پڑتے ہیں کیونکہ ایسے افراد بغیر انسولین کے زندہ نہیں رہ سکتے، ذیابطیس کی علامات میں پیاس کا زیادہ لگنا، بارر بار پیشاب آنا، بھوک لگنا، تھکاوٹ، اور وزن میں کمی شامل ہیں۔

اینڈوکرائنولوجسٹ ڈاکٹر شاہد کے مطابق اس بیماری سے بچاؤ کا حل صرف طرز زندگی میں تبدیلی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، طرزِ زندگی میں تبدیلی کا مطلب روزانہ چہل قدمی، ورزش اور تازہ پھل اور سبزیوں کا کثرت سے استعمال سمیت گوشت کی ایک خاص مقدار بھی شامل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp