سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار صباحت رضوی نے کہا کہ بلے کے نشان پر سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر آئینی ہے، ہم پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار سے متفق نہیں ہیں۔ اس فیصلے کے تناظر میں کسی بھی پارٹی کو نشان سے محروم کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اس جماعت کو تحلیل کر رہے ہیں۔
13 جنوری کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو انٹرا پارٹی الیکشن ٹھیک نہ کروانے پر ان سے پارٹی نشان چھین لیا، جس کے بعد سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ اور فیصلے کے حوالے سے کافی ٹرولنگ کی گئی۔ کل پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل نے اعلان کیا کہ وہ انٹر پارٹی الیکشن کے فیصلے کے حوالے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن لاہور ہائیکورٹ بار اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دے رہا ہے۔
مزید پڑھیں
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار صباحت رضوری نے بتایا کہ 1988 میں بے نظیر بھٹو کیس میں گیارہ رکنی بینچ کا پارٹیوں کے نشانات کے حوالے سے بڑا تفصیلی فیصلہ آیا ہوا ہے، لیکن سپریم کورٹ نے اسکو فالو نہیں کیا حالانکہ سپریم کورٹ پابند تھا۔ اس فیصلے کے تناظر میں کسی بھی پارٹی کو نشان سے محروم کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اس جماعت کو تحلیل کر رہے ہیں۔
’سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرکے صاف شفاف انتخابات پر بھی انگلیاں اٹھا دی ہیں بلکہ انتخابات کو متنازع بنا دیا گیا ہے‘۔
لاہور ہائیکورٹ بار نے کل اس فیصلے پر فل ہاؤس بلا لیا ہے
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ صباحت رضوی نے کہا کہ اس فیصلے کے تناظر میں کل لاہور ہائیکورٹ بار ایک فل ہاؤس بلانے جا رہا ہے، جس میں اس غیر جمہوری عمل پر لاہور ہائیکورٹ بار اپنا ایک لائن آف ایکشن مرتب کرے گی جو جہوری عمل کو روکے گا تو لاہور ہائیکورٹ بار اسکے خلاف میدان میں آئے گی۔
سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو اس فیصلے پر نظر ثانی اپیل دائر کرنی چاہیے اور اسکے اوپر ایک لاجرر بینچ بنانا چاہیے جو طے کرے کہ کیا انٹرا پارٹی الیکشن میں اگر کوئی بلامقابلہ منتخب ہوگیا ہے تو اسکے کے لیے کونسے رہنما اصول مرتب کیے جاسکتے ہیں اس فیصلے سے کروڑوں ووٹرز کی دل آزاری ہوئی ہے۔