آپریشن مرگ بر سرمچار: پاکستان کا ایران میں دہشت گردوں پر جوابی حملہ، ایرانی میڈیا نے تصدیق کردی

جمعرات 18 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کی آماجگاہوں پر حملے کرتے ہوئے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک  کردیا ہے۔

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں ایران کی دراندازی کے جواب میں، ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان کے علاقے سراوان میں بلوچ دہشت گردوں کی مختلف آماج گاہوں پر پاکستانی حملوں میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں۔

ایران کی طرف سے سرکاری طور پر ان حملوں پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا تاہم ایرانی میڈیا نے پاکستانی حملوں اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اپنا دورہ ڈیووس مختصر کرکے آج رات وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔

’پاکستان نے متعدد  بار ایران کے ساتھ ثبوت بھی شیئر کیے‘

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے فوری اقدام نہ کرنے پر آج پاکستان نے جوابی کارروائی کی ہے، انٹیلی جنس آپریشن میں متعدد دہشتگرد مارے گئے ہیں، دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بنیاد پر مبنی آپریشن کا نام ’مرگ بر سرمچار‘ تھا۔

اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ آج ایران کے صوبے سیستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔ پاکستان نے انتہائی منظم اور مہارت سے دہشت گرد اہداف کو نشانہ بنایا، انٹیلی جنس آپریشن میں متعدد دہشتگرد مارے گئے ہیں۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ایران کی سلامتی اور خودمختاری کا مکمل احترام کرتے ہیں، پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کی مکمل پاسداری کرتا ہے۔ ایران ہمارا پڑوسی برادر ملک ہے، پاکستان تمام ممالک سے بہترین تعلقات کا خواہشمند ہے، پاکستان کی سلامتی اور قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ڈیووس کا دورہ مختصر کردیا ہے، وہ آج پاکستان واپس پہنچ رہے ہیں۔

’پاکستان نے ایران کے صوبے سیستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے، پاکستانی دہشت گرد سرمچار کے نام سے ایران میں پناہ لیتے تھے، پاکستان نے کئی بار ایران کے ساتھ ثبوت بھی شیئر کیے ہیں، پاکستان ایران کی سالمیت اور خودمختاری کی پوری عزت کرتا ہے، لیکن یہ حملہ پاکستان نے اپنی سالمیت اور خودمختاری کے دفاع میں کیا ہے۔

’پاکستان کسی کو اپنی خود مختاری اور سالمیت کو چیلینج نہیں کرنے دے گا‘۔

پریس بریفنگ کے دوران صحافی نے سوال کیا کہ ایرانی فوجیں پھر سے حملے کی تیاری کر رہی ہیں، جواب میں ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ افواہوں پر بات نہیں کروں گی لیکن پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہے۔

سوال ہوا کہ کیا ایران نے پاکستان سے وضاحت طلب کی ہے؟ ترجمان نے جواب دیا کہ پچھلے 2 سے 3 گھنٹے میں مجھے کسی بات چیت کا علم نہیں۔ ہم جنگ کو بڑھانا نہیں چاہتے، اور جانتے ہیں کہ کچھ دن پہلے ہونے والے حملوں کی وجہ سے صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے۔ ایران ایک برادر ملک ہے۔

’ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات ضروری ہیں۔ ہم بشمول ایران اپنے تمام ہمسایوں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں‘۔

سوال کیا گیا کہ کیا کسی تیسرے فریق نے اس معاملے میں مذاکرات کی کوشش کی؟ جواب دیا گیا کہ اس وقت تک مجھے کسی تیسرے فریق کی جانب سے ثالثی کی کوششوں کا کوئی علم نہیں، آپریشن کی مزید تفصیلات آئی ایس پی آر جاری کرے گا۔

’اس آپریشن کے نام کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں، پاکستان گزشتہ کافی عرصے سے ایران کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا، اس لیے ہمیں اعتماد ہے کہ درست طریقے سے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے گئے ہیں۔ جوابی حملے کے بعد ایران کے رابطے  کی اطلاعات نہیں ہیں، ایران کو حملے کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا‘۔

ایک اور سوال ہوا کہ ایرانی سائیڈ سے آپ کو کوئی بات چیت کے لیے اپروچ کیا گیا؟ ترجمان کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ ابھی تک مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں، ایران کی جانب سے حملے سے پہلے پاکستان کے ساتھ کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں، یہ آپریشن ایران کے بطور ریاست ان کے اداروں کے خلاف نہیں کیا گیا صرف دہشت گردوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اس سال ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوئے جن میں باہمی تجارت، رابطہ کاری، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر بات ہوئی، اس لیے ہمیں ان حملوں سے حیرت ہوئی ہے۔

’اس بارے میں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کا انتظار کیا جائے، ہمارا ہدف وہ پاکستانی دہشت گرد تھے جو خود کو سرمچار کہتے ہیں۔ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کے لیے کوشش کرنا چاہتا ہے‘۔

ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ہم نے افغان حکام کے ساتھ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں ٹھوس معلومات شیئر کی ہیں اور ان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے، اور یقین دہانی مانگی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔

سوال کیا گیا کہ طورخم بارڈر بند ہے، چمن بارڈر بند ہے انگور اڈہ بند ہے، افغان حکام نے دھمکی دی ہے کہ انگور اڈہ مستقل بند کر دیں گے، ممتاز زہرا بلوچ نے جواب دیا کہ پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان آمد و رفت ویزا کی بنیاد پر ہونی چاہیے، ہم سمجھتے ہیں کہ افغان حکام اس مسئلے کو سمجھیں گے۔

ایرانی حملے پر پاکستان کی جوابی کارروائی، سیاسی جماعتوں کے رہنما متحد ہوگئے

ایران کی جانب سے گزشتہ روز فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں میزائل حملے کیے گئے جس پر پاکستان نے جوابی کرتے ہوئے ایران کے اندر بلوچ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، اور ایران سے تمام سفارتی تعلقات بھی ختم کردیے گئے۔ اس صورتحال پر پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں بھی متحد ہوگئیں اور پاک فوج کی جوابی کارروائی کو سراہا۔

سابق وزیر اعظم شہباز شریف

سابق وزیر اعظم اور صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف نے دہشتگردوں کے خلاف سیستان میں انٹیلی جنس بیسڈ کامیاب کارروائی پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا، اور کہا کہ پاکستان اپنی خود مختاری، سلامتی اور تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، دہشتگردی کیخلاف کارروائی کرنے والی ٹیم کو سلام پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی عملداری سے محروم علاقے میں کارروائی دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اہم ہے، دہشتگرد مشترکہ دشمن ہیں، علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ پاکستان اپنی خود مختاری، سلامتی اور تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

’دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔

سابق وزیر دفاع خواجہ آصف

خواجہ آصف نے کہا کہ ہمارے دور میں ایران کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے، کوشش کرنی چاہیے ایران سے تعلقات مزید خراب نہ ہوں۔ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سعودی عرب اور ایران تنازع کے حل کے لیے پاکستان نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔

سابق وفاقی وزیر شیری رحمان

سابق وفاقی وزیر اور رہنما پاکستان پیپلز پارٹی شیری رحمان نے کہا کہ ایران نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ لیکن یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایران امن کا ہاتھ بڑھائے گا تو پاکستان پیچھے نہیں رہے گا۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ ایران کا پاکستان پر حملہ افسوسناک اور ناقابل قبول ہے، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سے علاقائی صورتحال مزید خراب ہوگی، دشمن اس سے فائدہ اٹھانے اور حالات کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب مسلم دنیا کو اسرائیل کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے، ایسا اقدام ناقابل فہم ہے، اس آپسی تفریق سے اسرائیل کو شہ ملے گی۔ مسائل حل کرنے کا بہترین راستہ مذاکرات ہیں۔

ایران کی پاکستان میں دراندازی، عالمی ردعمل

امریکا نے پاکستان پر ایرانی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے قول و فعل میں تضاد ہے، ایران ہمسایہ ممالک میں دہشتگردی کا سب سے بڑا اسپانسر ہے، گزشتہ چند دنوں میں ایران کی جانب سے پاکستان، عراق اور شام کی خود مختار سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ میتھیو ملر نے ایران کی جانب سے ہونے والے حملوں پر مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے ملک میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا دعویدار ہے، ایران کی وجہ سے ہی امریکا عراق میں موجود ہے۔ ایران جنوبی سرحدوں پرخلاف ورزی کررہا ہے، ہم تنازع کو خطے میں پھیلتا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

’ایران خطے میں دہشت گردی کی فنڈنگ کی قیادت کرتا ہے، اس کی جانب سے پاکستان پر عائد الزامات حیرت انگیز ہیں‘۔

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے بھی بیان جاری کیا اور واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی گئی تھی۔ دونوں فریقین سے کشیدگی میں اضافے کا باعث بننے والے اقدامات سے گریز کا مطالبہ کرتے ہیں، امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں ملک مل کر کام کریں۔

برطانیہ نے بھی ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی مذمت کی، برطانیہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایرانی حملہ مکمل طورپرناقابل قبول ہے۔

یاد رہے منگل کو ایرانی فورسز نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ اور ایرانی سرکاری ٹی وی کی خبر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں جیش العدل نامی تنظیم کے 2 ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے۔

ایران کی دراندازی: نگراں وزیراعظم کاکڑ نے دورہ ڈیووس مختصر کردیا

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد اپنا دورہ ڈیووس مختصر کر دیا ہے۔ وہ آج رات وطن واپس پہنچیں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کے 54ویں سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے 14 جنوری کو ڈیووس پہنچے تھے، انہوں نے 22 جنوری کو واپس آنا تھا۔ تاہم ایران کی طرف سے پاکستان میں دراندازی کے تناظر میں انہوں نے اپنا دورہ مختصر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

نگراں وزیراعظم نے اپنے دورہ ڈیووس کے دوران امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے موسمیات جان کیری اور سری لنکن صدر کے علاوہ ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے بھی ملاقات کی۔

واضح رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ سے ان کی ملاقات ایران کی جانب سے بلوچستان میں میزائل حملے سے ایک روز پہلے ہوئی تھی۔

آپریشن مرگ بر سرمچار، ایرانی میڈیا نے ہلاکتوں کی تصدیق کردی

ایرانی ’ پریس ٹی وی‘ نے ایران کے جنوب مشرقی صوبے ’سیستان و بلوچستان‘ میں متعدد دھماکوں کے نتیجے میں  7 غیر ایرانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

پریس ٹی وی نے  ایک ایرانی سیکورٹی اہلکار  کی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ جمعرات کی صبح پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ ’سیستان و بلوچستان‘ کے جنوب مشرقی شہر سراوان کے  گرد و نواح کے مختلف علاقوں میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔

صوبے کے نائب گورنر علی رضا مرہماتی نے ایرانی خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کو بتایا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں

واضح رہے کہ پاکستان نے آج ( جمعرات) کی صبح ایران دراندازی کے جواب میں ’ آپریشن مرگ بر سرمچار‘ کے نام سے ایرانی شہر ’سراوان‘ کے مختلف مقامات پر مناسب ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتوں کی خبر دی گئی تھی۔

ایران کی طرف سے تادم تحریر سرکاری موقف سامنے نہیں آیا تاہم اب ایرانی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں سے پاکستانی ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ اور اس کے اثرات کی تصدیق ہو رہی ہے۔

 

پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کی جانب سے ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ کا آغاز کر دیا گیا ہے، اور ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف انتہائی مربوط اور خاص طور پر ٹارگیٹیڈ فوجی حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کے دوران متعدد دہشت گرد مارے گئے۔ اس آپریشن کا کوڈ نام ’مرگ بر سرمچار‘ رکھا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق پاکستان کے گزشتہ کئی برسوں سے ایران کے ساتھ تعلقات ہیں، پاکستان ایران کے اندر موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے بارے میں اپنے سنگین خدشات کا مسلسل اظہار کرتا رہا ہے۔ پاکستان نےا یران کے ساتھ ان دہشت گردوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد کے ساتھ متعدد ڈوزیئرز بھی شیئر کیے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ ہمارے سنگین خدشات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔ آج کی کارروائی ان نام نہاد سرمچاروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں مصدقہ انٹیلی جنس کی روشنی میں کی گئی۔

’یہ کارروائی پاکستان کے تمام خطرات کے خلاف اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کے غیر متزلزل عزم کا مظہر ہے۔ اس انتہائی پیچیدہ آپریشن کا کامیاب انعقاد بھی پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا ۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے۔ آج کے اقدام کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کا حصول تھا جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر، پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کو برقرار رکھتا ہے جس میں رکن ممالک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری شامل ہے۔ ان اصولوں کی رہنمائی میں، اور بین الاقوامی قانون کے اندر اپنے جائز حقوق کو بروئے کار لاتے ہوئے، پاکستان کبھی اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو کسی بھی بہانے یا حالات میں چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

دوسری طرف امریکی تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر سے منسلک تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے اس حملے سے متعلق بتایا ہے کہ متعدد اطلاعات کے مطابق ایران میں موجود دہشتگردوں کے کیمپوں پر پاکستان کی جانب سے حملہ کیا گیا ہے اور پاکستان نے ایرانی حملے کا جواب دینے کے لیے زیادہ تاخیر نہیں کی۔

واضح رہے کہ منگل کی رات ایران نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجگور سے تقریباً 60 کلومیٹر دُور تحصیل کلگ میں کوہ سبز نامی گاؤں کی ایک مسجد اور اس سے ملحقہ گھروں کو میزائل حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں ادریس نامی شخص کی 2 بچیاں جاں بحق ہوگئیں، جن کی عمریں 8 اور 12 سال تھیں جبکہ 3 بچے بُری طرح زخمی ہوگئے۔ ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں موجود جیش العدل کے ہیڈ کوارٹر کو ڈرون اور میزائلوں سے تباہ کردیا گیا ہے۔

ایران کے مطابق سبز کوہ جیش العدل کے سیکنڈ ان کمانڈ ملا ہاشم کا علاقہ ہے جو 2018 میں پنجگور سے ملحقہ ایرانی علاقے سراوان میں ایرانی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا۔ پاکستان میں نام نہاد جیش العدل دہشتگرد گروپ کے 2 اہم ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنائے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔

پاکستان کی جانب یہ موقف سامنے آیا تھا کہ ایران کی جانب سے ایسا کرنا تشویشناک ہے کیونکہ یہ غیر قانونی عمل پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے کے متعدد چینلز کے موجود ہونے کے باوجود ہوا ہے۔

تاہم دن کے وقت پاکستان نے اس افسوسناک واقعے پر باضابطہ بیان جاری کیا اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان نے ایران کے سامنے اپنا دوٹوک مؤقف بھی واضح کردیا کہ پاکستان دراندازی کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکام نے ایران کے تمام دورے ملتوی کردیے جبکہ پاکستان نے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے ایرانی سفیر کو بھی ملک سے نکلنے کا حکم دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp