ہمارے منو بھائی بس کچھ الگ ہی تھے

جمعہ 19 جنوری 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

منیر احمد قریشی یعنی اپنے پیارے سے منو بھائی کے والد صاحب تو انہیں اپنی طرح ریلوے ملازم بنانا چاہتے تھے لیکن منو بھائی کو ابتدا سے ہی ادب سے خاص شغف رہا۔ اسی لیے ریلوے کی نوکری چھوڑ کر راولپنڈی سے شائع ہونے والے  اخبار ’تعمیر‘  میں 50 روپے ماہانہ کے عوض پروف ریڈر لگ گئے اور پھر وہ سفر شروع ہوا جس کے ہر موڑ پر غیر معمولی ادبی تخلیقات کا گلدستہ کھلا۔ مشہور کالم ‘گریبان’ رہا جبکہ ڈراموں میں سونا چاندی،  خوبصورت، گم شدہ، دشت، جھوک سیال اور جزیرہ نمایاں ہیں۔

منیر احمد سے منو بھائی

منیراحمد قریشی کے نام سے ہی منو بھائی نے اپنی ابتدائی ملازمت کا آغاز کیا۔ احمد ندیم قاسمی سے علیک سلیک تھی تو ان کی نگرانی میں ‘امروز’ میں ایک نئے سفر کی شروعات کی۔ قاسمی صاحب جانتے تھے کہ منیر احمد کو گھر میں ان کی بہنیں ‘منو بھائی’ کے نام سے مخاطب کرتی ہیں۔ جب انہوں نے ایک کالم لکھا تو قاسمی صاحب نے اس میں سے منیر احمد کے بجائے ‘منوبھائی’ کے نام سے شائع کیا جس کے بعد سے منیراحمد، منو بھائی کے نام سے ہی مشہور ہو گئے۔ چونکہ یہ نام احمد ندیم قاسمی صاحب نے دیا تھا اسی لیے منو بھائی نے اسے اپنے اعزاز سمجھتے ہوئے اختیار کیا۔

ضیاالحق، گریبان اور منو بھائی

جنرل ضیا الحق سے ایک بار جب پاکستانی صحافت کا دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے سمجھ نہیں آتی آج کل صحافی کیا کر رہے ہیں، میں روز کالم پڑھتا ہوں۔ اب میں کالم نگار عبدالقادر حسن کا ‘اسلامائزیشن’ دیکھوں یا پھر منو بھائی کا ‘گریبان’ پکڑوں”۔ منو بھائی تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے برملا کہا کہ ہم تو بے لباس لوگ ہیں، ہمارا گریبان کیسے پکڑیں گے۔

بھٹو صاحب کی فرمائش پر فلسطین پر فلم

ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں تھے تو انہوں نے خصوصی طور پر اس بات میں دلچسپی دکھائی کہ فلسطین کے سلگتے ہوئے موضوع پر بین الاقوامی معیار کی فلم تخلیق کی جائے۔ اسی بنا پر منو بھائی،  ٹی وی پروڈیوسر اسلم اظہر مرحوم اور کنور آفتاب کی ذمے داری لگائی گئی۔ ٹاسک یہ تھا کہ یاسر عرفات کے ساتھ مل کر فلسطین کے حالات و واقعات اور اسرائیلی جبر و تشدد کے بارے میں بھرپور معلومات حاصل کی جائے۔ منو بھائی نے پھر فلم کی کہانی فلسطینی مصنف توفیق کی معاونت کے ساتھ لکھنا شروع کی  لیکن اسی دوران لبنان کی جنگ چھڑ گئی تو فلسطینی مصنف کو پاکستان سے واپس جانا پڑا اور پھر ان کی شہادت کی خبر آئی جس کے بعد یہ پروجیکٹ ادھورا ہی رہ گیا۔ منو بھائی کو ساری زندگی یہ ملال رہا کہ کاش یہ فلم پردہ سیمیں کی زینت بن جاتی۔

سونا چاندی خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش

بہت کم لوگ واقف ہیں کہ سونا چاندی کے کردار منو بھائی نے اپنے گھر کے ملازم جوڑے سے متاثر ہو کر لکھے تھے۔ انہوں نے ان 2 کرداروں کو سب سے پہلے اپنے پنجابی زبان کی ڈراما سیریز ‘کیہ جاناں میں کون’ میں پیش کیا لیکن اس میں ان دونوں کرداروں کے نام سونا چاندی نہیں  بلکہ پپو اور نذیراں تھے۔ منو بھائی کہا کرتے تھے کہ انہوں نے ‘سونا چاندی’ کے ذریعے خواتین کو با اختیار اور طاقت ور کے طور پر پیش کیا کیونکہ پورے ڈرامے میں چاندی کی شوہر سونا پر ہر وقت برتری رہتی ہے بلکہ وہ ذہانت کے اعتبار سے بھی شوہر سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور کئی مرحلے پر وہ یہ ثابت بھی کر دکھاتی  ہے۔   یہی وجہ ہے کہ سونا چاندی کو خواتین کی جانب سے خاصی پذیرائی ملی۔ پھر اسی طرح عموماً گاؤں کے باسیوں کا شہری مذاق اڑاتے ہیں لیکن اس ڈرامے میں پہلی دفعہ ہوا کہ گاؤں کے سیدھے سادھے کرداروں نے شہریوں کو مذاق کا نشانہ بنایا۔

عوام کی اپنی جھلک بے نظیر کو دکھانے کی خواہش

شہید بے نظیر بھٹو جب جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس پہنچیں تو اخبارات میں یہی لکھا گیا کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے نظیر بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آئے جس پر منو بھائی نے اپنے کالم میں لکھا کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے نظیر بھٹو کی جھلک دیکھنے نہیں آئے بلکہ انہیں اپنی جھلک دکھانے آئے ہیں کہ وہ آج بھی ننگے پاؤں یا پھر ہوائی چپل کے ساتھ سڑکوں پر آ رہے ہیں اور ہمارے آج بھی کپڑے پھٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنی لیڈر کو اپنی اصل حقیقت دکھانے آئے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی توجہ جب منو بھائی کے ان سطروں کی طرف دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ منو بھائی نے بالکل درست لکھا ہے۔ اسی عرصے میں منو بھائی کی جب بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس جانب اپنا خدشہ ظاہر کیا کہ اس جدوجہد کے سفر میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ جس پر بے نظیر بھٹو کا جواب تھا کہ وہ اس خطرے سے لاعلم نہیں لیکن کیا کریں؟ ملک چھوڑ دیں؟ سیاست چھوڑ دیں؟ پارٹی چھوڑ دیں؟ یا پھر بھٹو کی بیٹی ہونا چھوڑ دیں؟ بے نظیر بھٹو کے ان سوالوں کا منو بھائی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

پرچی کو برُچھی بناؤ

منو بھائی کہتے ہیں کہ جب 70 میں ملک میں الیکشن ہوئے تو وہ اس وقت پیپلز پارٹی کا ترجمان سمجھے جانے والے اخبار ‘مساوات’ میں کام کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب سے دریافت کیا کہ الیکشن کے وقت کیا سرخی ہونی چاہیے؟ جس پر بھٹو صاحب نے پوچھا کہ عام  عوام  ووٹ کو کیا کہتی ہے؟ منو بھائی کا جواب تھا  ’پرچی‘ جس پر بھٹو صاحب بولے کہ عوام کو اس بات کا شعور دیا جائے کہ پرچی کو برُچھی (نیزے) کے طور پر استعمال کرتے ہوئے صحیح نمائندوں کو چن کر اپنا نشانہ درست بنائیں۔

بچوں سے پیار

منو بھائی نے بچوں کے لیے جہاں بے شمار تحریریں لکھی ہیں وہیں انہوں نے تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور بلڈ کینسر جیسے امراض سے جنگ کرنے والے بچوں کے علاج و معالجے اور امداد کے لیے ایک ادارہ بھی قائم کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp