اس الیکشن میں عوام کو سیاستدانوں سے کوئی زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ شاید انہیں علم ہوگیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے یا وہ اس قابل ہی نہیں اور یا پھر ان کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ اس ملک کے مسائل حل کرسکیں۔
عوام کو اب اپنے بچوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے کہ ان کی زندگیوں میں تو یہاں ہر شعبہ ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار رہا ہے۔ ہر طرف بے چین والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں انتہائی فکرمند نظر آتے ہیں کہ یہاں رہتے ہوئے انہیں نوکریاں کہاں سے ملیں گیں۔ جن میں سکت ہے وہ اپنے بچوں ملک سے باہر بھیج رہے ہیں۔ کاروبار دوسرے ملکوں میں تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ بعض ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے گھر بیچ کر برطانیہ یا دوسرے ممالک میں ورک پرمٹ حاصل کرکے فیملی سمیت شفٹ ہو گئے ہیں۔ افراتفری اور سیاسی عدم اعتماد کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں کاروباری افراد نے سرمایہ دبئی اور دیگر ملکوں میں منتقل کر دیا ہے۔
خاص طور پر نوجوان انتہائی مایوسی کے عالم میں ہیں، جب وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اور ہمارا ’دشمن‘ ہمسایہ بھارت کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم کتنی تیزی سے نیچے کی طرف جا رہے ہیں۔
حال ہی میں ایک نوجوان تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آسٹریلیا پہنچا تو فون پر گھر والوں کو بتا رہا تھا کہ پورا جہاز پاکستانی نوجوان طلبا سے بھرا ہوا تھا۔
سیاسی عدم استحکام کے ساتھ کئی دہائیوں سے سیکیورٹی کے معاملات اب تک پیچھا کر رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، افغان طالبان سے ہماری اسٹیبلشمنٹ خاصی توقعات لگائے بیٹھی تھی مگر انہوں نے بھی مایوس کیا ہے۔ حال ہی میں بلاول بھٹو نے کہا کہ افغانستان میں چائے کی ایک پیالی ہمیں بہت مہنگی پڑی۔
مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے مگر ایران کے ساتھ جاری کشمکش کسی حل کی طرف نہیں لے کر گئی۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایران نے پاکستان کی سرحدوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں میزائل داغ دیے، جس کہ جواب میں پاکستان نے پہلے سفارتی تعلقات منقطع کیے اور اگلے روز ایران کے صوبہ سیستان۔بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔. ایک عرصے سے گہرے دوست رہنے والے ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔
عوام بالخصوص نوجوان نسل اس صورت حال میں بے چین نظر آتی ہے۔ ایسے میں الیکشن کے نتائج مہنگائی کے ستائے عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لانے سے قاصر ہیں۔
Related Posts
ادہر سیاسی جماعتوں کے نعرے بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ انہیں خود اعتماد نہیں کہ وہ اس ابتر معاشی صورتحال میں کیا کرسکیں گے۔ کہہ تو رہے ہیں کہ غریبوں کو گھر دیں گے، تنخواہیں دگنی کر دیں گے، معیشت ٹھیک کریں گے، وغیرہ وغیرہ۔ مگر واضح منصوبہ نہیں کہ کس طرح ملک کو معاشی گرداب سے نکالا جائے گے۔
بیرونی امداد ملنے کی خوشخبریاں پچھلی کئی دہائیوں سے دی جا رہی ہیں جو ملک کے عوام کو مقروض تر کر رہی ہیں۔ ان قرضوں کو مع سود اتارنے کے لیے سارا بوجھ صرف عوام پر ٹیکسوں کی صورت میں ڈالا جاتا ہے۔
کوئی جماعت یہ نہیں بتا پا رہی کہ قرضے حاصل کرنے کے سوا ان کے پاس طویل دورانیے کا کیا منصوبہ ہے جس سے وہ برآمدات کو فروغ دیں گے تاکہ آمدن میں اضافہ ہوسکے۔
موجودہ نگراں حکومت زراعت میں انقلاب لاکر برآمدات میں اضافے کے خواب دکھا رہی ہے، تو کبھی اربوں ڈالر کے قدرتی معدنیات کے ذخائر پر بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کوششیں کر رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے نزدیک پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ یہاں کے عدالتی نظام اور سیاسی عدم استحکام کے باعث بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتے ہیں۔
آج ہم جہاں کھڑے ہیں اس کے ذمہ دار سیاستدان، ادارے اور ایسے تمام لوگ ہیں جو ملک کی باگ ڈور سنبھال کر اس کی معاشی، سیکیورٹی اور دیگر تمام پالیسیاں بناتے رہے ہیں۔ انہیں احساس بھی نہیں کہ ان کی انہی ناکام پالیسیوں کی وجہ ہی سے معیشت، سیکیورٹی یا تعلیم سمیت ہر شعبہ گراوٹ کا شکار ہے۔