تحریک انصاف اور مفاہمت کا تاثر؟

ہفتہ 16 مارچ 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف کی ’ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا ‘ کی سیاست ترک کرکے مفاہمت کی پالیسی پر گامزن ہونا سب کے لیے حیرانی سے کم نہیں اور یہ سب آنکھوں اور کانوں کو عجیب سا لگ رہا ہے۔

بانی چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان کے تابڑتوڑ حملوں کی زد میں رہنے والے مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں اور پھر ’ غدار اور ملک دشمن‘  محمود خان اچکزئی کو پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بنانا کوئی معمولی بات نہیں۔

یہ سب عمران خان کی مرضی کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں ہو سکتا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور کا وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرکے صوبے کے معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دینا مفاہمت کی طرف ایک خوش آئند قدم ہے۔

کیا عمران خان ان راست اقدامات کے ذریعے ناراض حلقوں کو پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ وہ سسٹم میں واپسی کے لیے سنجیدہ ہیں؟ یا وہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے استعفوں، فوج سے سیدھا ٹکراؤ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کی تحلیل اور 9 مئی حملوں جیسی غلطیوں سے سیکھنا چاہتے ہیں؟ یا وہ کسی جانب سے ریلیف کے لیے یہ سب کر رہے ہیں؟

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کو سیاسی حلقے تحریک انصاف کی طرف سے ایک اچھی حکمت عملی کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

معیشت کے ماہرین، کاروباری افراد اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار امید کر رہے تھے کہ الیکشن ہوں تو کافی حد تک سیاسی عدم استحکام ختم ہو جائے گا۔ مگر الیکشن کے بعد کی صورت حال مزید خراب ہونا شروع ہوگئی۔

البتہ عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھا گیا خط کچھ زیادہ اثر نہیں دکھا سکا اور وفد مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔

علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران کی منظوری کے بعد وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا جس کا مقصد صوبے کے مالی مسائل کو وفاق کے تعاون سے ہی حل کیا جائے گا۔

 تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کے بیان کہ ہر بات پر ڈنڈا سوٹا نہیں چلتا بھی اس بات عکاس ہے کہ پارٹی مذاکرات کے ذریعے معاملات کو بہتر کرنے کا ارادہ رکھتی جو ایک مثبت اشارہ ہے۔

نئی حکومت پر سب سے بڑا بوجھ پی آئی اے سمیت نقصان میں جانے والے اداروں سے جان چھڑانا ہے اور تحریک انصاف کی صورت میں تگڑی اپوزیشن کے ہوتے ہوئے یہ کام سرانجام دینا انتہائی مشکل ہو گا۔

اس کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو ایک صفحے پر آنا پڑے گا تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد مل سکے۔ میثاق معیشت جیسی حکومتی پیشکش کو قبول کرنے کے سوا تحریک انصاف کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا۔

پاکستان تحریک انصاف کا سارا فوکس وفاقی حکومت پر ہے۔ پنجاب میں مضبوط اپوزیشن ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کوئی ہنگامہ نہیں کر رہی۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ سارے معاملات وفاق سے ہی جڑے ہوئے ہیں اور پارٹی کی مشکلات کم کرنے میں وفاق میں بیٹھے سیاسی اور اداروں میں بیٹھے طاقتور حلقے ہی مدد کرسکتے ہیں۔ اسی لیے تحریک انصاف لچک دکھا کر اپنے خلاف جاری کارروائیاں اور کیسز میں ریلیف حاصل کرنے کی تگ دو کرتی معلوم ہوتی ہے۔

عمران خان کی دھرنا سیاست اور مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے، مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے صاف انکار کے عزائم نے انہیں بے انتہا مقبولیت دی مگر اس سے ان کی قبولیت شدید متاثر ہوتی گئی۔

انہیں ایک قریبی ساتھی نے ایک سال قبل مشورہ دیا تھا کہ انہیں سیاستدانوں سے مذاکرات کرنے ہوں گے تاکہ الیکشن کے انعقاد پر اتفاق کیا جاسکے۔ مگر عمران خان نے ایک نہ سنی اور کہا کہ وہ ان ’چوروں‘ سے بالکل بات نہیں کریں گے۔

مگر حال ہی میں صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں عمران خان کہتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے دوران تشدد اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث افراد کی ویڈیوز نکال کر قانونی کارروائی کی جائے اور جو بے قصور ہیں انہیں رہا کیا جائے۔

انہوں نے اشارہ دیا کہ فوج سے ان کی جماعت کی کوئی لڑائی نہیں اور وہ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب ان کی جماعت کی طرف سے اپنے مخالفین کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا مہنگائی اور معاشی و سیاسی بحران میں گھرے ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp