جمہوریت کو درپیش چیلنجز

ہفتہ 27 جنوری 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک عرصہ تک الیکشن بے یقینی کا شکار رہے اور اب الیکشن کے بعد کی صورت حال پر چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ اگلی حکومت 2 سال سے زیادہ نہیں چل پائے گی۔ بعض لوگ کہتے ہیں نواز شریف اگلے وزیراعظم ہوں گے، مگر صرف 2 سال کے لیے۔

جہانگیر ترین زور دے رہے ہیں کہ اگلی حکومت کو 5 سال پورے کرنے دیے جائیں۔ نواز شریف اشارے دے رہے ہیں کہ آئندہ وزیراعظم کو نکالنے کے تمام راستے بند کردیں گے۔

یعنی گوں مگوں اور عدم استحکام جیسی صورت حال ابھی سے شروع ہوگئی ہے۔ جب فیصل واوڈا جیسے لوگ جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب تریں لوگوں میں شمار ہوتے ایسی باتیں شروع کردیں تو لوگ اس سے کیا اخذ کریں گے۔

 

بدترین معاشی صورت حال میں اگر سیاسی عدم استحکام ایسے ہی جاری رہا تو الیکشن کے بعد سرمایہ کاری کی امید لگانا بے سود ہو گی۔

مہنگائی کی چکی میں پسے عوام اس نظام سے پہلے ہی اکتا چکے ہیں اور جس انداز میں سیاسی جوڑ توڑ کی جارہی ہے، انہیں الیکشن سے قبل ہی الیکشن کے نتائج کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنا مقام تیزی سے کھو رہی ہیں۔

میڈیا کی آزادی بس نام کی رہ چکی ہے۔ سیاستدان میڈیا کے ساتھ کھڑا  ہونے کی بجائے اس پر قدغنیں لگانے میں اداروں کا بھرپور طریقے سے ساتھ دے رہے ہیں۔ صحافتی تنظیمیں بھی آواز بلند کرنے سے قاصر ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کےخلاف ہونے والی کارروائیوں پر دیگر جماعتیں کھل کرحمایت کرتی نظر آ رہی ہیں۔ عمران خان کے اقتدار کے دوران اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت میں بچی کھچی ساکھ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا جسے واپس حاصل کرنے کے لیے ایک لمبی جدوجہد درکار ہوگی۔ اس کا احساس سیاسی کاریگروں کو بہت جلد ہوجائے گا۔

ملک کے تمام سیاستدانوں کو بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ الیکشن کے بعد ان کے پاس کتنے اختیارات ہوں گے کہ وہ اپنی مرضی سے فیصلے کر پائیں گے۔ جس کی عکاسی الیکشن میں روایتی جوش و جذبہ اور دلچسپی کی کمی سے ہو رہی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے ابھی سے شکایات کرنا شروع کردی  ہیں کہ انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا نہیں کی جا رہی ہے اور پھر بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کو لاڈلہ بھی قرار دے دیا ہے۔ ہر کوئی لاڈلہ بننے کی دوڑ میں ہے اور کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔

جمہوری عمل کو مضبوط بنانے یا کھوئی ہوئی ساکھ واپس لینے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں عملی طور اقدامات اٹھانا تو دور کی بات اس پر بولنے سے بھی کترا رہی ہیں۔

انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی کسی بھی ملک کی جمہوریت کے لیے لازم وملزوم ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور آزاد میڈیا جمہوریت کی مضبوطی کے لیے مشترکہ طور پر مسلسل جدوجہد کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام کو ان کے حقوق دلائے جائیں۔

پاکستان میں اس وقت یہ حال ہے کہ حکومتوں یا اداروں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک کی معیشت انتہائی مخدوش حالت پر پہنچ چکی ہے اور بیرونی فنڈنگ کے حصول کی تمام سخت ترین شرائط کا خمیازہ بھی عوام بھگت رہے ہیں۔

 آج کی صورت حال صاف بتا رہی ہے کہ جس انداز میں سیاستدانوں نے طاقت ور حلقوں کے سامنے سرنگوں کر رکھا ہے اور تمام جماعتیں ان کی طرف امیدیں لگائے بیٹھی ہیں، آنے والی جمہوری حکومت برائے نام اور بے اختیار ہوگی اور تمام فیصلے کرنے کا اختیار صرف مقتدر حلقوں کے پاس ہی نظر آ رہا ہے۔

محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے کئی سال جمہوری عمل کو ایسے ہی چلایا جائے گا کیونکہ سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر جمہوری اقدار کے تحفظ اور فروغ کی کوئی فکر نہیں۔ دور تک کوئی ایسے اثرات نظر نہیں آتے کہ سیاسی جماعتیں انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی یا پارلیمنٹ کی توقیرکے لیے کوئی تحریک چلائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp