چراغ کی مدھم روشنی سے بلے کی بلے بلے تک، عمران خان کی اچھوتی انتخابی کہانی

بدھ 8 مارچ 2023
author image

سرفراز راجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ کہانی ’چراغ ‘سے شروع ہوئی، بہت سوں کو شاید اس کا علم نہیں ہوگا ۔تحریک انصاف کے بانیان نےآغاز میں یقیناً کافی سوچ بچار کے بعد چراغ کا انتخابی نشان منتخب کیا ہوگا تاکہ انتخابات سے پہلے ووٹرز کو یقین دلایا جاسکے کہ ’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘۔سیاسی مخالفت کے حربوں پر کچھ یوں جواب دیا جائےگا کہ’ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘۔ اورشکست، دھاندلی شاندلی ہوئی تودوسروں کو کچھ یوں متنبہ کرینگے ’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘۔ ویسے شاید اچھا ہی ہواکہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان چراغ نہیں رہا، ورنہ ان کے موجودہ نسل کے ووٹرز اور سپورٹرز کو تو پرانے وقتوں میں پائی جانیوالی چراغ نامی چیز سے آشنا کرانا بھی ایک مشکل مرحلہ بن جاتا۔

:چراغ ،بلا، اور ہار جیت کے چھکے

عمران خان کی جماعت کی انتخابی سیاست کی طرح ان کے انتخابی نشان کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا ہے سب جانتے ہیں لیکن کم ہی جانتے ہوں گے کہ یہ نشان پارٹی کی پہلی پسند کبھِی نہ تھا ۔ تحریک انصاف نے پہلی بار 1997 کے انتخابات میں حصہ لیا تو ان کا انتخابی نشان ‘چراغ ‘ تھا۔پھر 2002 میں ان سے یہ نشان چھن گیا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد آفتاب احمد شیرپاؤ نے اپنے گروپ کے لئے چراغ کا انتخابی نشان حاصل کیا اور تحریک انصاف کو’بلا’ مل گیا۔ 2008 میں تحریک انصاف نے بائیکاٹ کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور 2013 میں جب وہ پھر انتخابی میدان میں اترے تو ان کی نظریں تحریک’ انصاف’ نام کے تناظر میں’ ترازو’ پر لگی تھیں۔ لیکن یہاں جماعت اسلامی بھی اسی نشان کے حصول کے لئے مدمقابل آگئی ۔الیکشن کمیشن میں دونوں نے اپنا اپنا مقدمہ رکھا۔ کمیشن نے درخواستوں کو جانچا تو معلوم ہوا جماعت اسلامی نے نشان کے لئے پہلے درخواست دی تھی لہذا نشان انہیں مل گیا۔ تحریک انصاف کے لئے ٹارچ اور پہاڑ جیسے متبادل نشانات زیر غور آئے۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے پنجاب سے رکن جسٹس ریاض کیانی تھے، جنہوں نےتحریک انصاف کے پارٹی وکلا کو مشورہ دیا کہ وہ بلے کا نشان لے لیں ۔ان کے پارٹی سربراہ کرکٹررہے ہیں اور وہ پہلے اس نشان پر انتخاب لڑ بھی چکے ہیں تو مشاورت کے بعد تحریک انصاف نے بلے پر ہی اکتفا کرلیا جو بعد میں پارٹی کی شناخت بنا اور ’اوپر اللہ اور نیجے بلا ‘جیسے نعرے بھی سننے کو ملے۔

:ہار اور جیت کے ریکارڈ

بات تحریک انصاف کی انتخابی سیاست کی ہو تو پہلے دو عام انتخابات میں تحریک انصاف کے جس ایک امیدوار کو عوام جانتی تھی تو وہ عمران خان تھے۔ 1996 میں عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اگلے ہی سال عام انتخابات آگئے۔ جس میں عمران خان نے ایک ساتھ 8 نشستوں پرحصہ لیا۔ وہ لاہور،کراچی کی دو دو نشستوں ،ڈی آئی خان ،میانوالی،اسلام آباد اور سوات کی ایک نشست پر امیدوار بنے۔ نواز شریف،مولانا فضل الرحمان اور فاروق ستار سے مقابلہ کیا،لیکن وہ نہ صرف ان تمام نشستوں سے انتخاب ہار گئے بلکہ 6 نشستوں پر ان کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی۔ ایک ساتھ اتنی نشستوں پر شکست بھی ملک کی انتخابی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ عمران خان نے ان تمام 8 نشستوں پر 53 ہزار 3 سو ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کی جماعت کے 134 امیدوار اُس وقت ملک بھر سے سوا 3 لاکھ ووٹ ہی حاصل کر سکے۔

اپنے پہلے الیکشن میں عمران خان آبائی علاقے میانوالی سے 17 ہزار 8 سو ووٹ حاصل کر سکے تھے،،2002 میں عمران خان بلے کے نشان پر پہلی بار میانوالی کی اسی نشست سے رکن قومی اسمبلی بنے اور 66 ہزار ووٹ لے کرمخالف امیدوار کے مقابلے میں 6 ہزار کی لیڈ سے کامیاب ہوئے۔ اور پھر 2013 میں اسی نشست سے دوگنا ،ایک لاکھ 32 ہزار ووٹوں اور 60 ہزار کی لیڈ سے الیکشن جیتے اور 2018 میں ایک لاکھ 65 ہزار ووٹ لے کر ایک لاکھ 15 ہزار کی بھاری لیڈ سے جیتے۔

گزشتہ عام انتخابات میں عمران خان نےملک بھر سے 5 نشستوں پر الیکشن جیت کر ریکارڈ بنایا اور اکتوبر 2022 میں قومی اسمبلی کی 7 نشستوں کے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور 6 نشستوں پر کامیابی کے ساتھ اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا۔لیکن ان کا 8 نشستوں پر الیکشن ہارنے کا ریکارڈ ابھی برقرار ہے،اور انتخابات کا کھیل بھی جاری ہے۔ جیتنے کا ریکارڈ تو شاید ٹوٹ جائے لیکن ہارنے والا ریکارڈ ٹوٹ پائے گا؟ مشکل لگتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp