حوثیوں کا امریکی بحری جہاز پر 2 اینٹی شپ بیلسٹک میزائلوں سے حملہ

جمعہ 19 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا کی سینٹرل کمانڈ نے کہا ہے کہ یمن کے وسیع حصے پر قابض حوثیوں نے خلیجِ عدن میں امریکی بحری جہاز پر 2 اینٹی شپ بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ بحری جہاز ’ایم وی چیم رینجر‘ کے عملے نے 2 میزائل قریب ہی پانی میں گرتے ہوئے دیکھے۔ تاہم حوثیوں کے حملے میں جہاز کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا جب کہ اس پر سوار عملہ بھی محفوظ ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ بحری جہاز تیل کی سپلائی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کی رجسٹریشن امریکا کے مارشل آئی لینڈ میں کی گئی ہے۔ اس بحری ٹینکر کو یونان کے شہریوں پر مشتمل عملے کی مدد سے ترسیل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ادھر یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت ایک بڑے رقبے پر قابض حوثی باغیوں نے امریکی بحری جہاز کو نشانہ بنانے کی تصدیق کی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے حملے میں اہداف براہ راست نشانہ بنے ہیں۔

حوثیوں نے خلیج عدن میں امریکا کے بحری جہاز پر اس وقت بیلیسٹک میزائل داغے جب اس سے کچھ گھنٹے قبل امریکی بحریہ نے ٹاما ہاک میزائلوں سے جنوبی یمن میں 14 مقامات کو نشانہ بنایا جس میں حوثیوں کے زیرِ استعمال اینٹی شپ میزائلوں کو تباہ کیا گیا تھا۔

امریکا کے یمن میں حوثیوں کے خلاف حملے اور بحیرۂ احمر میں حوثیوں کی کارروائیاں ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہیں جب غزہ میں جاری جنگ کے خطے میں پھیلنے کے خدشات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کی نائب ترجمان سبرینا سنگھ نے 2 روز قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ امریکا جنگ نہیں چاہتا اور نہ ہی امریکا کا یہ خیال ہے کہ وہ حالتِ جنگ میں ہے۔ امریکا خطے میں بھی کوئی جنگ نہیں دیکھنا چاہتا۔

یمن میں امریکی فضائی کارروائی کی تفصیلات بتاتے ہوئے سبرینا سنگھ نے کہا کہ امریکی فوج نے ایف-18 جنگی جہازوں کی مدد سے حوثیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور یہ حملے دفاعی مقصد کے تحت کیے گئے تھے۔ اس دوران زمین پر موجود 2 اینٹی شپ میزائل تباہ کیے گئے جن سے بحیرہ احمر کے جنوب میں تجارتی بحری جہازوں اور امریکا کی نیوی کے خطے میں موجود بحری جہازوں کو خطرہ ہو سکتا تھا۔

پینٹاگان کی نائب ترجمان نے کہا تھا کہ اب یہ حوثیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی کارروائیاں کب روکتے ہیں اور وہ ہر بار بحری تجارت میں رخنہ ڈالنے کی کس قدر قیمت چکا سکتے ہیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے کہا ہے کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی دہشت گرد بین الاقوامی بحری اہلکاروں کی زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں جب کہ وہ بحیرہ احمر کے جنوبی علاقوں کے قریب بین الاقوامی سمندری حدود میں تجارتی جہاز رانی میں بھی خلل کا سبب بن رہے ہیں۔ جنرل مائیکل ایرک کوریلا کا مزید کہنا تھا کہ امریکی فوج معصوم بحری اہلکاروں کی زندگیوں کے لیے ایکشن لیتی رہے گی اور اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔

واضح رہے کہ امریکی فوج کے حملوں سے قبل برطانیہ اور امریکا کی فورسز نے مشترکہ طور پر بھی یمن میں حوثیوں کے خلاف کارروائی کی تھی اور ان تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا جو بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے لیے خطرے کا سبب ہو سکتی تھیں۔ امریکا نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران یمن میں حوثی باغیوں کو 5ویں بار نشانہ بنایا ہے۔

حوثیوں نے بحیرہ احمر میں روسی اور چینی بحری جہازوں کے لیے محفوظ راستے کی ضمانت دے دی

روسی نشریاتی ادارے ازویسٹیا کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں حوثیوں کے اعلیٰ عہدیدار محمد البخیتی نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے روسی اور چینی بحری جہازوں کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی ہے۔

البخیتی نے واضح کیا کہ یمن کے آس پاس کا پانی روس اور چین جیسے ممالک کے بحری جہازوں کے لیے محفوظ رہے گا، بشرطیکہ وہ مخصوص ممالک، خاص طور پر اسرائیل سے منسلک نہ ہوں۔ انہوں نے روسی اور چینی بحری جہازوں کے محفوظ گزرنے کو یقینی بنانے کے لئے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کے ملک کے لیے آزاد نیوی گیشن بہت اہم ہے۔ تاہم حوثیوں نے اسرائیل سے وابستہ بحری جہازوں پر حملے جاری رکھنے کا عہد کیا ہے، جبکہ دوسرے ممالک کے جہازوں کو خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

حوثی گروپ نے یمن میں امریکا اور برطانیہ کے فضائی حملوں کے جواب میں امریکا اور برطانیہ سے منسلک بحری جہازوں سمیت اپنے اہداف میں اضافہ کیا ہے۔ البخیتی نے ان اقدامات کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ انصاراللہ، جیسا کہ سرکاری طور پر جانا جاتا ہے، کا مقصد غزہ میں تنازع کو روکنے کے لیے اسرائیل کے لیے معاشی اخراجات میں اضافہ کرنا ہے۔ ایک اسرائیلی تاجر سے منسلک تجارتی جہاز گلیکسی لیڈر پر قبضے کا دفاع کرتے ہوئے البخیتی نے اسے دوسروں کو اپنی ضروریات پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کے لیے احتیاطی اقدام قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جہاز کا عملہ، جو اب بھی قید میں ہے، اچھی حالت میں ہے۔

اگرچہ حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے حملے مخصوص قومیتوں کے جہازوں کو منتخب طور پر نشانہ بناتے ہیں لیکن امریکی بحریہ کے ایک کمانڈر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں شامل بحری جہازوں کے درجنوں ممالک سے تعلقات ہیں۔ یہ صورتحال خطے میں سمندری ٹریفک کے لیے پیچیدہ حرکیات اور ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp