باچا خان نے نمازیوں کے جوتے بھی سیدھے کیے

ہفتہ 20 جنوری 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسی پچاسی سالہ بزرگ کے سر پر سرخ ٹوپی دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور مارے تجسس کے قریب پہنچ کر پوچھا، “بابا کہاں سے ہو”؟ بابے نے جواب دیا، “گومل سے”۔ میں نے پھر پوچھا کہ خدائی خدمت گاروں کا تو پورا لباس ہوتا ہے جبکہ آپ صرف ٹوپی پہنے ہوئے ہیں۔ یہ بات سنتے ہی انہوں نے چہرے کے بدلتے تاثرات کے ساتھ کہا، “آپ نے صرف لباس دیکھنا ہے؟ لباس تو مذہبی دکاندار بھی وہی پہننے کا دعویٰ کر رہے ہیں جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہنا کرتے تھے لیکن کرتے کیا ہیں؟ اب تو یہ لباس (لال جوڑا اور ٹوپی) پہننا ایک عیب بن گیا ہے۔ لوگ پاگل اور دیوانہ سمجھنے لگتے ہیں البتہ میں بتا دوں کہ میں ہوں دیوانہ باچا خان بابا کی محبت کا، ان کے فلسفے کا۔”

میں نے پھر سے پوچھا کہ باچا خان کی کوئی یاد؟ تو کہنے لگے کہ “باچا خان اتنا بڑا تھا کہ بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ ایک بار ہمارے گاؤں آیا تھا، لوگ ان کے چپل سیدھے کر رہے تھے تو باچا خان کو ایسا کرنا ناگوار گزرا اور لوگوں کو منع کرنے کی کوشش کی کہ کسی انسان کے چپل سیدھے کرنا درست عمل نہیں ہے اور یہ غلامانہ ذہنیت انگریز ملاؤں کے ذریعے ہمارے معاشرے میں پھیلا رہا ہے۔ لیکن لوگوں نے کہا کہ خدمت سے اللہ ملتا ہے اور ہم ثواب کما رہے ہیں۔ باجماعت نماز ختم ہونے کے بعد باچا خان مسجد کے دروازے پر آئے اور لوگوں کے چپل سیدھے کرنے لگا تو لوگ دوڑ کر ان کے پاس آئے کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ تو ہمارے مہمان اور مشر ہیں تو باچا خان نے کہا کہ اگر کسی کے چپل سیدھے کرنے سے آپ لوگ ثواب کما سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟”

سرخ ٹوپی والا بابا یہ واقعہ سنا کر مجھ پر باچا خان کی عظمت کا ایک اور پہلو روشن کر کہ مزید کچھ کہے آگے بڑھ گیا۔

آج باچا خان کی برسی ہے جن کی محبت اس بابے اور میرے سمیت لاکھوں پشتونوں کے دل میں بستی ہے۔ ان پر 4 جولائی 1987 کو انڈیا میں فالج کا حملہ ہوا تھا اور وہ 20 جنوری 1988 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔

پاکستان میں انگریز کی نگرانی میں باچا خان کے حوالے سے جھوٹا اور شرمناک بیانیہ بنایا گیا لیکن یہ بیانیہ بھی باچا خان کی تاریخ میں عظمت کو کم نہ کر سکا۔ اس وقت بھی پاکستان میں ‘سلیکٹڈ سیاست’ سے متاثرہ افراد کہتے ہیں کہ باچا خان نسل پرست تھا لیکن 1948 میں جس وقت بابڑہ کے مقام پر 600 کے قریب پشتونوں کو شہید کر دیا گیا تھا تب بھی باچا خان نے عدم تشدد کی پالیسی ترک نہیں کی تھی۔ حالانکہ اس وقت تازہ تشکیل دی گئی ریاستی پولیس سے زیادہ تعداد میں باچا خان کے پاس خدائی خدمت گار موجود تھے۔ اس کے باوجود بھی باچا خان کو نسل پرستی کے جھوٹے الزام میں 15 سال جیل میں گزارنا پڑے۔

گزشتہ تین چار دہائیوں سے دنیا بھر میں پشتونوں کو مذہبی شدت پسند قوم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس میں بدقسمتی سے ہماری ریاستی مشینری کا بنیادی کردار ہے۔ لیکن پشتونوں کی حقیقی تاریخ وہی ہے جو باچا خان ان کے لیے بطورِ ورثہ چھوڑ گئے تھے۔ جن دنوں باچا خان برصغیر میں انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے اس وقت کا پشتون آج کی جدیدیت سے کوسوں دور تھا لیکن یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہو رہی ہے کہ پشتونوں نے باچا خان کے فلسفے اور سوچ کے عین مطابق آزادی کی جدوجہد میں ایسا حصہ ڈالا جس میں نہ تو شدت تھی اور نہ تشدد۔ میرے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی آزادی کی جنگیں غلط تھیں یا پھر لڑی ہی نہیں گئی لیکن ہمارا موضوع تاریخ کا وہ پہلو نہیں بلکہ باچا خان ہے جبکہ نقطہ وہ الزامات ہیں جو اس وقت پشتونوں پر ایک مستند چھاپ کی طرح لگے ہوئے ہیں کہ پشتون تاریخی طور پر متشدد واقع ہوئے ہیں۔

پچھلے دنوں ایک ٹی وی شو میں سینئر صحافی ابصار عالم نے بڑی خوبصورت بات کی کہ ہمیں اپنی تاریخ سے بھی ڈر لگتا ہے، ہم جب عظیم سیاسی شخصیات کی مثال دیتے ہیں تو نیلسن منڈیلا کی بات کرتے ہیں حالانکہ نیلسن منڈیلا سے زیادہ جیل تو باچا خان نے گزاری ہے۔ پاکستان میں مین سٹریم میڈیا پر ایسی باتیں کم ہی سننے کو ملتی ہیں کیونکہ ہم اس جھوٹے بیانیے اور تاریخ سے نکلنا ہی نہیں چاہتے جو ہمارے معاشرے کی تقسیم کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ہماری ترجیحات ہی آنکھیں بند کر کے آگے نکل جانا ہے لیکن آج کے جدید دور میں اصل تاریخ کو سامنے آنے سے روکا جا سکتا نہ جھٹلایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حقائق کو من و عن تسلیم کیا جائے تاکہ پائیدار معاشرتی، معاشی اور سیاسی ترقی کی بنا پڑے۔ باچا خان کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نظریات کی بنیاد بھی یہی ہے کہ معاشرے حقائق اور نظریات کو اپنا کر ہی ترقی حاصل کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp