پاکستان میں عام انتخابات کو چند روز باقی رہ گئے ہیں لیکن مسلم لیگ ن ابھی تک اپنی انتخابی مہم بہتر انداز سے نہیں چلا سکی تاہم لیگی رہنما دعوے کر رہے ہیں کہ انہیں عام انتخابات میں سادہ اکثریت مل جائے گی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف ابھی تک 2 ہی جلسے کر پائے ہیں جن میں ایک جلسہ حافظ آباد جبکہ دوسرا آج مانسہرہ میں ہوا ہے۔
نوازشریف کوئی واضح پلان سامنے نہیں لا سکے، سلمان غنی
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی نے کہاکہ پاکستان کے عوام کو نواز شریف سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں کہ وہ اس مشکل صورت حال میں کس طرح ریلیف دے سکتے ہیں لیکن نوازشریف اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضح پلان سامنے نہیں لا سکے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہاکہ نوازشریف 2018 کی طرح جلسے نہیں کر پا رہے۔ 2018 میں مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ لے کر چل رہی تھی جسے عوام نے پسند کیا اور قائد مسلم لیگ ن ملک سے باہر رہنے کے باوجود بھی مقبول رہے۔ لیکن اب کی بار مسلم لیگ ن کے پاس کوئی بیانیہ ہی نہیں جس کے باعث نوازشریف کو عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
نوازشریف کے اندر الیکشن والا جوش و جذبہ نظر نہیں آ رہا
سلمان غنی نے کہاکہ میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں نوازشریف کے اندر وہ الیکشن والا جوش و جذبہ نہیں ہے۔ وہ اپنے جلسوں میں ماضی کی باتیں کر کے عوام کا دل بہلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ماضی میں ملک کی ایسی صورت حال کبھی نہیں تھی، ابھی تو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے عوام پریشان ہیں اور ملک مشکل صورت حال سے گزر رہا ہے۔
سلمان غنی نے کہاکہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے مسلم لیگ ن ابھی تک کوئی واضح پلان نہیں دے سکی، ’لگتا نہیں کہ 8 فروری کے انتخابات میں کوئی بھی جماعت 100 سیٹیں بھی لے سکے، آئندہ مخلوط حکومت بنے گی اور ن لیگ کو بھی یہی سمجھ آ رہا ہے‘۔
نواز شریف پر 3 بڑے دباؤ تھے
سلمان غنی نے کہاکہ الیکشن مہم تاخیر سے شروع کرنے کی وجوہات ہیں اور نوازشریف پر 3 بڑے دباؤ تھے۔
سلمان غنی کے مطابق نوازشریف پر سب سے پہلا دباؤ عام انتخابات کے لیے ٹکٹ ہولڈرز کا چناؤ تھا جس پر وقت لگ گیا، اس کے بعد دوسرا دباؤ اتحادیوں کے ساتھ چلنے کی اسٹریٹجی تھی کیونکہ جن لوگوں نے تحریک عدم اعتماد کے وقت ساتھ دیا ان کو بھی کہیں ایڈجسٹ کرنا تھا۔
سینیئر تجزیہ کار نے کہاکہ نوازشریف پر تیسرا بڑا دباؤ شہبازشریف کی اتحادی حکومت کی 16 ماہ کی کارگردگی کا ہے کیونکہ اس دور میں مہنگائی اور بیروزگاری کا طوفان آیا۔
انہوں نے کہاکہ اس سے قبل 2 دباؤ سے تو نوازشریف نکل گئے ہیں لیکن 16 ماہ کی حکومتی کارکردگی کا دباؤ ابھی بھی ان پر ہے۔ اس لیے وہ 16 ماہ کی حکومتی کارکردگی کا ذکر کرنے کے بجائے ماضی کی کارکردگی بتاتے ہیں۔