آئندہ عام انتخابات 2024 کے انعقاد کو 20 روز سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، ایسے میں ملک بھر کی نظریاتی، مذہبی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں سمیت آزاد امیدوار بھی بڑھ چڑھ کر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ امیدوار ایک جانب جہاں کارنر میٹنگز، جلسے جلوسوں اور گلی محلوں میں عوام کو اپنی جانب مائل کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں سوشل میڈیا پر بھی اپنی تشہیر میں مصروف عمل ہیں۔
بات ہو اگر بلوچستان کی تو صوبے میں ماضی کی نسبت اس بار انتخابی گہما گہمی زرا مدھم دکھائی دیتی ہے۔ عوامی حلقوں کے مطابق انتخابی سرگرمیوں میں ہلچل نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں امیدواروں کو درپیش سیکیورٹی خدشات، نوجوانوں کی انتخابی مہم میں عدم دلچسپی اور امیدواروں کا گلیوں سے نکل کر انتخابی مہم سوشل میڈیا پر منتقل کرنا الیکشن کی گہما گہمی کو ختم کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں
الیکشن مہم سوشل میڈیا پر منتقل ہونے سے اخراجات کم ہو گئے، صبور کاسی
کوئٹہ سے آزاد حیثیت میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار صبور کاسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ماضی کی نسبت اس بار انتخابی مہم 90 فیصد تک سوشل میڈیا پر منتقل ہو چکی ہے۔ دراصل انتخابی مہم سوشل میڈیا پر منتقل ہونے سے امیدواروں کے بہت سے اخراجات ختم ہو گئے ہیں۔ پہلے امیدوار کو ایک آفس کھولنا پڑتا تھا جہاں اسے روزانہ کی بنیاد پر چائے اور کم از کم 2 قت کا کھانا دینا پڑتا تھا جس کی وجہ سے لاکھوں روپے انتخابی مہم کے دوران خرچ ہو جاتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ اب سوشل میڈیا کی ہر گھر تک باآسانی رسائی ہے تو گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ عوام اب پہلے سے زیادہ باشعور ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ہم سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔
سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے امیدوار گھروں سے باہر نہیں نکل رہے
صبور کاسی نے کہاکہ صوبے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیکیورٹی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں امیدواروں پر فائرنگ اور دستی بم حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں امیدوار اپنی سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے حلقوں میں زیادہ نہیں نکل رہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے فوائد کے ساتھ نقصانات بھی ہیں، تجزیہ کار
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ہر گزرتے دن کے ساتھ سوشل میڈیا کی اہمیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عوامی نمائندے کارنر میٹنگز اور جلسے جلوسوں کے بجائے اب سوشل میڈیا پر کم اخراجات کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جس سے ان کی آواز کم وقت میں زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور اخراجات کم ہونے کے ساتھ ساتھ وقت بھی بچ جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلانے کے بہت سے نقصانات بھی ہو رہے ہیں جس میں سب سے پہلا یہ کہ عوامی نمائندے عوام میں جا کر ووٹ نہیں مانگ رہے، ایسے میں امیدوار لوگوں کے سوالات سے بچ کر الیکشن میں ووٹ حاصل کر رہے ہیں۔ اگر امیدوار اپنے حلقے میں نہیں جائے گا تو حلقے کے مسائل کو بھی نہیں سمجھ پائے گا، ایسی صورتحال میں مسائل ارباب اختیار تک نہیں پہنچ سکیں گے۔