غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے لواحقین نے قانون سازوں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہ وہ ان کے یرغمالی رشتہ داروں کی رہائی کے لیے مزید اقدامات کریں یروشلم میں پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس پر دھاوا بول دیا۔
غزہ میں 4 مہینے سے جاری جنگ کے پس منظر میں یرغمالیوں کے تقریباً 20 رشتہ داروں کے ایک گروپ کی کارروائی دراصل وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے فلسطینی گروپ کے ساتھ معاہدے پر رضامندی سے انکار پر بڑھتے ہوئے غصے کی مظہر ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک خاتون نے خاندان کے 3 افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جو 7 اکتوبر کو سرحد پار سے حماس کی جانب سے کی گئی ہنگامہ آرائی میں پکڑے گئے 253 افراد میں شامل تھے، حماس کی اسی کارروائی نے بڑے پیمانے پر غزہ میں اسرائیلی کارروائی کو جنم دیا۔
نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران تقریباً 100 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا تاہم ابھی تک تقریباً 130 اسرائیلی شہری غزہ میں فلسطینی قید میں ہیں۔
کنیسیٹ فائنانس کمیٹی کی بحث میں مداخلت کے بعد انہی خاتون نے روتے ہوئے صرف ایک یرغمالی کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ’میں چاہوں گی زندہ واپس مل جائے، 3 میں سے ایک۔‘
سیاہ ٹی شرٹس میں ملبوس دیگر مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن میں لکھا تھا ’جب تک وہ وہاں مرتے ہیں آپ یہاں نہیں بیٹھیں گے۔‘ انہوں نے اپنے یرغمالی رشتہ داروں کی فوری رہائی کے لیے نعرے بھی لگائے۔
امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی کی کوششیں دونوں فریقین میں مصالحت سے خاصی دور دکھائی دیتی ہیں، وزیر اعظم نیتن یاہو نے حماس کی تباہی تک اسرائیلی مہم جاری رکھنے پر اصرار کیا ہے، فلسطینی گروپ کا اسرائیل سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنی جیلوں میں ہزاروں کی تعداد میں قید تمام فلسطینیوں کو رہا کرے تاکہ جواباً اسرائیلی اسیروں کو رہا کیا جائے۔
اسرائیلی یرغمالیوں کی قسمت نے اسرائیل کو پریشان کر رکھا ہے، جن میں سے 27 کے بارے میں خود اسرائیلی حکومت کا دعوٰی ہے کہ وہ دورانِ حراست ہلاک ہوچکے ہیں، تاہم لواحقین کو خدشہ ہے کہ جنگی تھکاوٹ اس توجہ کو کم کر سکتی ہے۔ ابتدائی طور پر قومی یکجہتی کو فروغ دینے والے مظاہرے مزید جارحانہ ہو گئے ہیں۔
کنیسیٹ فائنانس کمیٹی میں ہنگامہ آرائی کے دوران پارلیمنٹ کے ارکان، جو اکثر مظاہرین کو نکالنے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، خاموش رہے، ایک خاتون قانون ساز نے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
نیتن یاہو کے اتحاد میں ایک الٹرا آرتھوڈوکس یہودی پارٹی کے سربراہ اور پینل کے چیئرمین موشے گفنی کھڑے ہوئے، انہوں نے جاری اقتصادی بریفنگ کو روک کر مظاہرین کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔
پینل کے چیئرمین موشے گفنی نے قیدیوں کو چھڑانا یہودیت میں سب سے اہم اصول قرار دیا۔ ’خاص طور پر اس معاملے میں، جہاں زندگی کو بچانے کی اشد ضرورت ہے، لیکن اتحاد چھوڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘
اہل خانہ کا غصہ سرکاری عمارتوں تک محدود نہیں رہا۔ یرغمالیوں کے رشتہ داروں اور حامیوں نے ایک روز قبل ایک بار پھر مغربی یروشلم میں نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے قریب ریلی نکالی۔
گیلاد کورین بلوم نے، جن کا بیٹا غزہ میں یرغمال ہے، کہا کہ ہم اپنی حکومت سے سماعت کا کہہ رہے ہیں۔ ’مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ آیا اس معاہدے کو قبول کیا جائے یا کوئی دوسرا جو اسرائیل کے لیے موزوں ہو۔‘
ایک یرغمالی کے والد جون پولن نے کہا کہ اسرائیلی اپنے ملک کی خدمت کرتے ہیں اور بدلے میں حکومت سے اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کی توقع رکھتے ہیں۔ ‘ہم حکومت سے اپنا کردار ادا کرنے، ایک معاہدے کی تجویز دینے، اسے کامیاب انجام تک پہنچانے اور باقی یرغمالیوں کو زندہ واپس لانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔‘
مظاہرین نیتن یاہو کے ساحلی گھر کے ساتھ ساتھ کنیسیٹ کی عمارت کے باہر بھی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، کچھ نے جنگ کے یکطرفہ خاتمے یا ایسے انتخابات کا مطالبہ کیا جو سخت دائیں بازو کی حکومت کو گرا سکے۔
نیتن یاہو نے حماس کی جانب سے جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے پیش کردہ شرائط کو گزشتہ اتوار کو مسترد کر دیا تھا جس میں اسرائیل کا مکمل انخلاء اور غزہ میں حماس کو اقتدار کی واپسی بھی شامل تھے۔
اس کے بعد، یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے فورم نے وزیر اعظم نیتن یاہو سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ واضح طور پر بیان کریں کہ اکتوبر میں کیے گئے حملوں کے دوران اغوا کیے گئے اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں سمیت دیگر یرغمالیوں کو کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا۔
فورم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر وزیر اعظم نیتن یاہو یرغمالیوں کی قربانی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو انہیں قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمانداری سے اسرائیلی عوام کے سامنے اپنا موقف بیان کرنا چاہیے۔