ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو نیو ہیمپشائر کے ری پبلیکن صدارتی پرائمری انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے، ایڈیسن ریسرچ کے مطابق ری پبلیکن پارٹی پر اپنے غلبہ کو مزید مضبوط کرتے ہوئے وہ نومبر میں ممکنہ طور پر ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کے ساتھ دوبارہ صدارتی انتخاب کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ایڈیسن ریسرچ کے مطابق، شمار کیے گئے متوقع ووٹوں کے 14 فیصد کے ساتھ، ڈونلڈ ٹرمپ نے 52.3 فیصد جبکہ اقوام متحدہ میں امریکا کی سابق سفیر نکی ہیلی 46.6 فیصد ووٹ حاصل کرسکیں، اس سے قبل وہ پرامید تھیں کہ شمال مشرقی ریاست کے آزاد ووٹرز کا بڑا طبقہ انہیں ایک حیرت انگیز فتح سے ہمکنار کرسکتا ہے، جو بالآخر ری پبلکن پارٹی پر ڈونلڈ ٹرمپ کی آہنی گرفت کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔
لیکن ہوا اس کے برعکس، ڈونلڈ ٹرمپ آئیووا اور نیو ہیمپشائر میں مسابقتی ووٹوں میں کلین سوئیپ کرنے والے پہلے ری پبلکن بن جائیں گے، آئیووا میں وہ 8 روز قبل ریکارڈ ساز مارجن سے کامیابی حاصل کرچکے ہیں، جبکہ 1976 کے بعد سے نیو ہیمپشائر اور آئیووا کی ریاستوں نے پہلے دو نامزد ہونے والے مقابلے کے طور پر اپنی حیثیت کو مستحکم کیا۔
مزید پڑھیں
اگرچہ حتمی مارجن ابھی تک واضح نہیں تھا، تاہم نتائج ممکنہ طور پر کچھ ری پبلیکنز کی جانب سے نکی ہیلی کے لیے دوڑ سے باہر ہونے کے لیے کالز میں اضافہ کریں گے، حالانکہ ان کی صدارتی امیدوار کے طور پر مہم نے منگل کے روز ایک میمو میں وعدہ کیا تھا کہ وہ مارچ کے اوائل میں ’سپر ٹیوز ڈے‘ تک آگے بڑھے گی، جب 16 ریاستیں اسی دن ووٹ دے رہی ہوں گی۔
اگلا مقابلہ 24 فروری کو ساؤتھ کیرولائنا میں شیڈول ہے، جو نہ صرف نکی ہیلی کی جنم بھومی ہے بلکہ یہیں وہ 2 مرتبہ بطور گورنر خدمات انجام دے چکی ہیں، تاہم اپنے تمام تر اثرورسوخ اور تعلقات کے باوجود، ڈونلڈ ٹرمپ ریاست کی زیادہ تر ریپبلکن شخصیات کی توثیق حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں، اور رائے عامہ کے جائزوں نے انہیں ایک وسیع برتری کے ساتھ دکھایا ہے۔
ریاست آئیووا میں نکی ہیلی نے فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹس کے بعد تیسری پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ اپنی ابتدائی مہم کا زیادہ تر حصہ انہوں نے نیو ہیمپشائر پر مرکوز کیا تھا، جہاں زیادہ اعتدال پسند رائے دہندگان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ٹرمپ کے مقابلے پر نکی ہیلی کو ریاست جیتنے کا شاید بہترین موقع فراہم کریں گے۔
نیو ہیمپشائر میں ٹرمپ اور ہیلی کے درمیان دو بہ دو مقابلہ در پیش تھا، جب فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس نے، جو کبھی ٹرمپ کے سب سے مضبوط چیلنجر کے طور پر دیکھے جاتے تھے، اتوار کو دستبردار ہو کر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
تاہم منگل کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے باوجود ’ایگزٹ پولز‘ نے عام انتخابات کی مہم میں ان کی ممکنہ کمزوریوں کی جانب نشاندہی کی ہے، انہیں متعدد جرائم کے ضمن میں مجرمانہ الزامات کے چار مجموعوں کا سامنا ہے، جس میں اپنی 2020 کے صدارتی انتخابات میں شکست کو الٹنے کی کوششیں اور 2021 میں وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد خفیہ دستاویزات کو اپنی تحویل میں رکھنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
ایڈیسن ریسرچ کی ایگزٹ پولنگ کے مطابق، ری پبلیکن پرائمری میں حصہ لینے والے تقریباً نصف ووٹروں کا کہنا تھا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ عدالت میں مجرم ٹھہرائے گئے تو وہ عوامی عہدے کے قابل نہیں رہیں گے۔