پاکستان اور چین کا اقوام متحدہ سے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام روکنے کا مطالبہ

بدھ 24 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے عالمی ادارے سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں لوگوں کاقتل عام روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے کیوں کہ اسرائیل فلسطین تنازعے کا دیرپا خاتمہ دو ریاستی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

یہ بات انہوں نے گزشتہ روز سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ کے بحران کے حوالے سے اجلاس کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل فلسطین کو آزاد مملکت تسلیم کرتے ہوئے اس کی عالمی ادارے میں مستقل رکنیت کے لیے اقدامات کرے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کونسل آخر کار ایک قرارداد منظور کر سکے گی جس میں مخاصمت کے مکمل خاتمے، غزہ کی محصور آبادی کے لیے انسانی امداد تک مکمل رسائی اور فلسطینی عوام کے لیے بین الاقوامی تحفظ کا مطالبہ کیا جائے گا۔

اجلاس میں 60 سے زیادہ مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن میں بہت سے وزرا بھی شامل تھے۔ مقررین نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی و امداد میں اضافے کی فوری ضرورت، دو ریاستی حل کی اہمیت اور مزید علاقائی کشیدگی سے بچنے کے لیے ضروری امور پر تبادلہ خیال کیا۔

اسرائیل کی جانب سے عالمی رائے عامہ کی خلاف ورزی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ اگر اسرائیلی قیادت امن سے انکار پر قائم رہتی ہے تو سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور درحقیقت اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کو اس کا جوابدہ ٹھہرانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، ایسے اقدامات کی متعدد مثالیں ہیں جو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے فیصلوں کی تعمیل کے لیے کیے جا سکتے ہیں۔

منیر اکرم نے زور دیا کہ دو ریاستی حل کے ناگزیر ہونے کو یقینی بنانے کے لیے یہ وقت ہے کہ فلسطین جسے اس وقت اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہے کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عالمی رائے عامہ اپنے قریبی اتحادیوں اور بہت سے لوگوں کے مشورے کے باوجود انتہا پسند اسرائیلی قیادت اس وحشیانہ جنگ کو جاری رکھنے اور فلسطینی ریاست اور دو ریاستی حل کے امکانات کو مسترد کرنے پر بضد ہے اور یہ رویہ مشرق وسطی کو دائمی تنازعات کی طرف لے جائے گا۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری کی وجہ سے خوفناک صورتحال کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بے گناہوں کا یہ وحشیانہ اور اندھا دھند قتل اور پوری آبادی پر مسلط کردہ مصائب نسل کشی کے مترادف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دعویٰ جنوبی افریقا کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں بھی کیا گیا ہے جس میں مدعی نے عالمی عدالت انصاف میں دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین کو بتایا کہ اسرائیلی قبضے سے بین الاقوامی انسانی قانون کے ہر اصول کی خلاف ورزی کی گئی۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ جنرل اسمبلی کی طرف سے دو قراردادوں میں بلائے جانے اور سلامتی کونسل میں تقریباً متفقہ ووٹوں کے باوجود عالمی برادری سرعام ہونے والی اس نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ تشدد اور جنگ فلسطین کے ملحقہ علاقوں اسرائیل لبنان سرحد، شام، عراق اور یمن تک پھیل چکی ہے انہوں نے کہا کہ جب تک اسرائیلی جنگی مشین کو روکا نہیں جاتا اس میں مزید شدت آنے کا امکان ہے جس کی لپیٹ میں بہت سے ممالک آسکتے ہیں۔

منیر اکرم نے کہا کہ سلامتی کونسل پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسرائیل کی جنگ کو جاری رکھنے اور غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف اس کے مظالم اور مغربی کنارے میں ہونے والے مظالم کو روکنے میں ناکام رہی۔

مسقتل مندوب نے کہا کہ آج کونسل کی بحث میں سننے والے فصیح الفاظ سے ہٹ کر ہم بے گناہوں کے قتل عام کو روکنے اور فلسطین، اسرائیل اور مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی تلاش میں ہیں۔

گلوبل ساؤتھ کے بیشتر ممالک نے غزہ پر اسرائیل کی مہلک جنگ اورغزہ میں شہریوں کے خلاف اس کے تشدد کی مذمت کی اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا لیکن بھارت نے مغربی ممالک کی پیروی میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر زور دیتے ہوئے موجودہ تنازعے میں فلسطینیوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔

بھارت کی حماس حملے کی تنقید، فلسطینیوں پر جاری ظلم پر زبان گنگ

اقوام متحدہ میں بھارت کے نائب مستقل مندوب، سفیر آر رویندرا نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تنازعے کا فوری محرک اسرائیل میں پچھلے سال 7 اکتوبر کو ہونے والے دہشت گرد حملے تھے، دہشت گردی اور یرغمال بنانے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ہمدردی ان لوگوں کے ساتھ ہےجنہیں یرغمال بنایا گیا اور ہم ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں تاہم انہوں نے اسرائیل کے ہاتھوں اغوا اور قید کیے گئے ہزاروں فلسطینی شہریوں کے لیے کوئی مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

بھارتی ایلچی نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کم کریں اور براہ راست امن مذاکرات کی جلد بحالی کے لیے حالات پیدا کرنے بارے کام کریں۔

اسرائیلی قیادت کا دو ریاستی حل کو مسترد کرنا ناقابل قبول ہے، چین

دریں اثنا چین نے کہا ہے کہ اسرائیلی قیادت کی جانب سے دو ریاستی حل کو مسترد کرنا ناقابل قبول ہے۔

شنہوا کے مطابق اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے ژانگ جون نے گزشتہ روز سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطح کے کھلے مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل ہی فلسطین اور اسرائیل کے لیے امن کے حصول کا واحد قابل عمل راستہ ہے اور یہ سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کا بھی ایک اہم تقاضا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اسرائیلی قیادت کی طرف سے دو ریاستی حل کو مسترد کرنے اور فلسطین کے ریاست کے قیام کے حق سے انکار کے بیانات پر شدید تشویش ہے اور یہ ناقابل قبول ہیں۔

ژانگ جون نے کہا کہ جنگ کے بعد غزہ کے انتظامات کے حوالے سے کوئی بھی بات چیت دو ریاستی حل سے انحراف اور ریت پر گھر بنانے کے مترادف ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ دو ریاستی حل کی بنیادوں کو مزید مٹانے سے روکا جائے اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینی شہریوں کی جبری منتقلی، مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع، فلسطینیوں کی گرفتاریوں اور حملوں کا خاتمہ کیا جائے۔

چینی مندوب نے کہا کہ چین بین الاقوامی کانفرنس بلانے اور بامعنی کثیرالجہتی عمل کو جلد شروع کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ دو ریاستی حل کے سیاسی امکانات کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ایک ناقابل واپسی عمل ہونا چاہیے اور چین اس عمل کے پہلے قدم کے طور پر اقوام متحدہ میں فلسطین کی جلد مکمل رکنیت کی حمایت کرتا ہے۔

ژانگ جون نے کہا کہ موجودہ حالات میں سلامتی کونسل کو ایک واضح اور غیر متنازع اشارہ بھیجنے کی ضرورت ہے، جس سے دو ریاستی حل کی فوری ضرورت کی تصدیق کی جائے جو واحد ممکنہ راستہ ہے۔

چینی نمائندے نے کہا کہ فوری جنگ بندی کو اس وقت سب سے زیادہ ترجیح سمجھنا چاہیے کیوں کہ طویل جنگ صرف مزید اموات کا باعث بنے گی اور امن کے امکانات کو مزید دور کر دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوری جنگ بندی انسانی جانوں، یرغمالیوں کو بچانے، انسانی امداد کو وسعت دینے اور امن کے قیام کے لیے بنیادی شرط ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنے اندھا دھند فوجی حملے اور تباہی بند کرنی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عالمی برادری کو فوری جنگ بندی کو فروغ دینے کے لیے سفارتی کوششیں کرنی چاہییں۔

انہوں نے غزہ میں جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسے بحیرہ احمر اور وسیع خطہ تک پھیلنےسے و روکنے کے لیے تمام کوششیں کی جانی چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ چین تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو۔ انہوں نے غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی توسیع میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوششوں پر بھی زور دیا۔

چینی نمائندے نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں 2712 اور 2720 پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہیے اور اسرائیل کو اس مقصد کے لیے مکمل تعاون کرنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp