کوئٹہ کے اہم صوبائی حلقے سےمڈل کلاس خاتون میدان میں اتر گئیں

جمعہ 26 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی سے منحرف ہونے والی ثناء ولی محمد درانی آزاد حیثیت میں کوئٹہ سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 43 سے الیکشن میں لڑ رہی ہیں۔ وہ 2 دہائیوں سے سماجی کارکن ہیں جبکہ 7 سال قبل انہیں نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔

دیگر امیدواروں کی طرح ان دنوں ثناء درانی بھی اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں اور ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کی کینویسنگ کا بیڑا اٹھانے والوں میں اکثریت خواتین کی ہی ہے جو گھر گھر جا کر ان کے لیے ووٹ مانگ رہی ہیں۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ثناء درانی نے کہا کہ ہمارے ملک میں یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ سیاست صرف قبائلی اور اشرافیہ کی جاگیر ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسی شخصیات ووٹ حاصل کرلینے کے بعد غریب اور متوسط طبقے کو 5 سال تک بھول جاتی ہیں۔ انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ عوام ایسے افراد کو ایوانوں کا حصہ بنائیں جو ان کے مسائل کے حل کی بات کریں۔

’پارٹیوں کی جانب سے خواتین کو ٹکٹ دینا محض رسمی کارروائی‘

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب الیکشن کمیشن کی شرائط کے مطابق ہر سیاسی جماعت کو 5 فیصد جنرل نشستوں پر خاتون رہنماؤں کو ٹکٹ دینا ہوتا ہے لیکن پارٹیاں کرتی یہ ہیں کہ وہ خواتین کو اس جگہ سے کھڑا کرتی ہیں جہاں جیتنے کی امید بہت کم ہوتی ہے۔

ثناء درانی نے کہا کہ جب سماجی کاموں کے لیے خواتین سے ملاقات ہوتی تھی تو ان کے مسائل سن کر وہ یہ سوچتی تھیں کہ ان مسائل پر کوئی کان کیوں نہیں دھر رہا لہٰذا اسی بات کے پیش نظر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انتخابات میں حصہ لیں اور اگر کامیاب ہوگئیں تو وہ خواتین کو درپیش مسائل کے لیے نہ صرف بات کریں گی بلکہ اس کے لیے بہتر قانون سازی کی بھی کوشش کریں گی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر والوں نے تو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی لیکن بلوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں خاتون کے گھر سے نکلنے کو آج بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا اور یہاں انتخابات میں حصہ لینا ایک مشکل کام ہے۔

’عوام کا رویہ مثبت لیکن خاتون امیدوار پر تحفظات موجود‘

ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران عوام کا رویہ ویسے تو کافی مثبت رہا لیکن ان کے ذہنوں میں یہ بات ضرور رہتی ہے کہ ایک خاتون گھر گھر جا کر مہم چلا رہی ہے اور تصاویر والے پوسٹرز اور بینرز خود آویزاں کر رہی ہے جو کہ ایک معیوب عمل گردانا جاتا ہے۔

قومی و صوبائی حلقوں میں خواتین امیدواروں کا تناسب

واضح رہے کہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 نشستوں میں سے 6 پر کوئی خاتون الیکشن نہیں لڑ رہیں اور صرف 4 قومی اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں ایک سے زیادہ خواتین الیکشن میں کھڑی ہوئی ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کل 428 امیدواروں میں سے صرف 14 خواتین میدان میں ہیں۔

بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے 51 میں سے 27 حلقوں سے کوئی خواتین الیکشن نہیں لڑ رہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کل 1,286 امیدواروں میں محض 3 فیصد یعنی 38 خواتین شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پنجاب حکومت اور تعلیم کے عالمی شہرت یافتہ ماہر سر مائیکل باربر کے درمیان مل کر کام کرنے پر اتفاق

وسط ایشیائی ریاستوں نے پاکستانی بندرگاہوں کے استعمال میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے، وزیراعظم پاکستان

حکومت کا بیرون ملک جاکر بھیک مانگنے والے 2 ہزار سے زیادہ بھکاریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ

کوپا امریکا کا بڑا اپ سیٹ، یوراگوئے نے برازیل کو ہرا کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا

ٹی20 کرکٹ سے ریٹائر بھارتی کپتان روہت شرما کیا ون ڈے اور ٹیسٹ کے کپتان برقرار رہیں گے؟

ویڈیو

پنک بس سروس: اسلام آباد کی ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کے لیے خوشخبری

کنوؤں اور کوئلہ کانوں میں پھنسے افراد کا سراغ لگانے کے لیے مقامی شخص کی کیمرا ڈیوائس کتنی کارگر؟

سندھ میں بہترین کام، چچا بھتیجی فیل، نصرت جاوید کا تجزیہ

کالم / تجزیہ

روس کو پاکستان سے سچا پیار ہوگیا ہے؟

مریم کیا کرے؟

4 جولائی: جب نواز شریف نے پاکستان کو ایک تباہ کن جنگ سے بچا لیا