سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے صدر پرویز الٰہی، صنم جاوید اور شوکت بسرا سمیت دیگر کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیدی۔
سپریم کورٹ کا پرویز الٰہی کا نام بیلٹ پیپرز میں شامل کرنے اور انتخابی نشان الاٹ کرنے کا حکم، پرویز الٰہی حلقہ پی پی 32 سے انتخابات لڑ سکیں گے۔ واضح رہے کہ پرویز الہی قومی اسمبلی کو نشستوں سے دستبردار ہوگئے تھے۔
سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیلوں پر سماعت آج ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ بھی بینچ میں شامل تھے۔
Related Posts
چوہدری پرویز الہی کے وکیل فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز چھپنا شروع ہو چکے ہیں۔ اس لیے جلد دلائل دینا چاہتے ہیں۔ اس پر مخالف فریقین نے معزز عدالت سے استدعا کی کہ انہیں کیس کی تیاری کے لیے 2 دن کا وقت دیدیا جائے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آپ آج ہی تیاری نہیں کریں گے تو ہم پرویز الہی کو انتخابات لڑنے کی اجازت دے دیں گے، ہم انہیں اجازت دے کر ایک ماہ کے بعد کیس مقرر کریں گے۔
اس کے بعد عدالت نے پرویز الہی کے کیس میں فریقین کو دلائل کی تیاری کے لیے آج ہی 11 بجے تک کا وقت دے دیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل شروع کیے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز الہی پر ایک پلاٹ ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا، پھالیہ میں وہ پلاٹ لینے کی ایسی تاریخ ڈالی گئی جب پرویز الہی جیل میں تھے، ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی پہلی بار الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں، وہ دو بار وزیراعلی رہ چکے ہیں۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے’ ہم نے الیکشن ایکٹ کی ایسی تشریح کرنی ہے جو عوام کو مرضی کے نمائندے منتخب کرنے سے محروم نہ کرے۔ پلاٹ کا اعتراض تب ہی بنتا تھا جب جج کا فیصلہ موجود ہو کہ پلاٹ فلاں شخص کا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا ’ہمیں ابھی تک ریٹرننگ افسر کا مکمل آرڈر بھی نہیں ملا۔ کاغذات نامزدگی پر یہ اعتراض عائد کیا گیا کہ ہر انتخابی حلقے میں انتخابی خرچ کے لیے الگ الگ اکاؤنٹ نہیں کھولے گئے۔ پرویز الہیٰ 5 حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے، 5 انتخابی حلقوں کے لیے 5الگ الگ اکاؤنٹس کھولے جائیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر انتخابی مہم میں حد سے زائد خرچہ ہو تو الیکشن کے انعقاد کے بعد اکاؤنٹس کو دیکھا جاتا ہے، کاغذات نامزدگی وصول کرنے والے دن پولیس نے گھیراؤ کر رکھا تھا۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ان باتوں کو چھوڑیں، قانون کی بات کریں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک اعتراض یہ عائد کیا گیا کہ انہوں نے پنجاب میں 10 مرلہ پلاٹ کی ملکیت چھپائی، اعتراض کیا گیا 20 نومبر 2023کو 10 مرلہ پلاٹ خریدا گیا، جب کہ ان کے موکل نے ایسا پلاٹ کبھی خریدا ہی نہیں، اُس وقت وہ جیل میں تھے۔
وکیل نے کہا کہ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے کی آئندہ کٹ آف ڈیٹ 30 جون 2024ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جائیدادیں پوچھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معلوم ہو امیدوار کے جیتنے سے قبل کتنے اثاثے تھے اور بعد میں کتنے ہوئے؟ آپ پلاٹ کی ملکیت سے انکار کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پلاٹ کا اعتراض تب ہی بنتا تھا جب جج کا فیصلہ موجود ہو کہ پلاٹ فلاں شخص کا ہے۔
وکیل نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر ایک ہی وقت میں پرویز الہی، مونس الہی اور قیصرہ الہی کی ان ڈکلئیرڈ جائیداد نکل آئی،اور آر او نے انہیں فیصلہ بھی نہیں دیا کہ کہیں چیلنج نہ کر لیں۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ’آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اچانک آپ کی اضافی جائیداد نکل آئی ہے،
آپ یہ اضافی جائیداد کسی فلاحی ادارے کو دے دیں۔
اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا’ میں تو کہتا ہوں حکومت کو اس جائیداد پر اعتراض ہے تو خود رکھ لے۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ کا اعتراض کنندہ کے وکیل سے دلچسپ مکالمہ ہوا۔ انہوں نے اعتراض کنندہ کے وکیل سے استفسار کیا ’ آپ کو پرویز الٰہی کی جائیداد کے بارے میں کیسے پتہ چلا؟‘
وکیل اعتراض کنندہ نے جواب دیا ’ہمیں ریکارڈ علاقہ پٹواری سے ملا‘۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ’
اس کا مطلب کہ نگران حکومت اس معاملے میں ملوث ہے۔ پٹواری کا نام بتا دیں۔‘
اس کا نام قیصر ہے‘۔ اعتراض کنندہ ووٹر نے جواب دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا ’آپ کے علم میں یہ ساری تفصیلات کیسے آئیں؟ ‘
اعتراض کنندہ ووٹر نے جواب دیا’ساہنوں تے ہور وی بڑے علم نیں۔‘
اس پر عدالت میں قہقہے پھوٹ پڑے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض کنندہ کے وکیل سے کہا ’ابتدائی طور پر پرویز الٰہی کے کاغذات نامزدگی پر 18 اعتراض تھے، ان میں سے 2 اعتراضات برقرار رہے، باقی اعتراضات تو آپ نے چیلنج ہی نہیں کیے۔‘
جس کے بعد معزز عدالت نے الیکشن ٹریبونل کا چوہدری پرویز الٰہی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ اور چوہدری پرویز الٰہی کو صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 32 گجرات سے انتخابات کی اجازت دیدی۔
صنم جاوید اور شوکت بسرا بھی الیکشن لڑیں گے
پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید کو این اے 119، این اے 120 اور صوبائی اسمبلی کے حلقے 150 سے انتخابات لڑنے کی اجازت مل گئی۔
سپریم کورٹ میں صنم جاوید اور شوکت بسرا کے کاغذات نامزدگی کیس کی سماعت ہوئی، صنم جاوید کے کاغذات نامزدگی پراعتراض اٹھایا گیا تھا کہ کاغذات نامزدگی 21 دسمبر کو دستخط ہوئے اور جمع 22 دسمبر کو کروائے گئے جس پر ریٹرننگ آفیسر نے فیصلہ دیا کہ دستخط جعلی ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ریٹرننگ آفیسر کیا الیکٹران مائیکروسکوپ لے کے بیٹھے تھے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ دستخط کی تصدیق کرانا تو ریٹرننگ آفیسر کے فرائض میں ہی شامل نہیں اس کے فرائض میں صرف 4 چیزوں کی تصدیق کرنا ہے۔ جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ 3 بجے کا وقت کہاں سے نکالا ہے الیکشن کمیشن نے؟ الیکشن شیڈول میں تو نہیں لکھا کہ 3 بجے تک کاغذات جمع ہوں گے۔
جسٹس منیب اختر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقررہ وقت کے آدھے گھنٹے کے بعد کاغذات جمع کرانے والوں کو الیکشن سے محروم کیسے رکھا جا سکتا ہے؟ قانون کے مطابق نیا اکاؤنٹ کھلوایا جائے تو سنگل پہلے سے موجود مشترکہ بھی قابل قبول ہوگا، قانون میں مشترکہ اکاؤنٹ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
تاہم الیکشن کمیشن کو صنم جاوید اور شوکت بسرا کے نام بیلٹ پیپر میں شامل کرنے اور انتخابی نشان الاٹ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
پی ٹی آئی کے شوکت بسرا این اے 163 بہاولنگر سے امیدوار ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں میجر (ر) طاہر صادق اور عمر اسلم کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت
اس سے قبل سپریم کورٹ تحریک انصاف کے رہنماؤں میجر (ر) طاہر صادق اور عمر اسلم کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دے چکی ہے تاہم عارف عباسی کے خلاف الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کے رہنما عمر اسلم کی ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
درخواست کی سماعت کے دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مفرور شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا بتا دیں کہاں لکھا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
عدالت نے عمر اسلم کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ مفرور ہونے کی بنیاد پر کسی کو انتخابات لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
میجر(ر) طاہر صادق اور عمر اسلم کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے تحریک انصاف کے رہنما میجر(ر) طاہر صادق اور عمر اسلم کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔
میجر( ر) طاہر صادق نے این اے 49 اٹک سے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں ، ریٹرننگ آفیسر، الیکشن ٹربیونل اور لاہور ہائیکورٹ نے رہنما پی ٹی آئی طاہر صادق کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے تھے۔
طاہر صادق نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا ۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما عمر اسلم کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیدی۔ معزز عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ مفرور ہونے کی بنیاد پر کسی کو انتخابات لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے عمر اسلم کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نےاعتراض کنندہ سے استفسار کیا کہ مفرور شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا بتا دیں کہاں لکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن لڑنا بنیادی حق ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
واضح رہے کہ عمر اسلم کے 9 مئی کے مقدمات میں مفرور ہونے کی بنیاد پر کاغزات نامزدگی مسترد کئے گئے تھے۔
رہنما پی ٹی آئی محمد عارف عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ برقرار
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما محمد عارف عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا الیکشن ٹربیونل فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے رہنما پی ٹی آئی عارف نواز عباسی کی ان کے کاغذات نامدگی مسترد کرنے کے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
دوراان سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کاغذات نامزدگی میں فوجداری مقدمات کا تذکرہ ہی نہیں کیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل نے اپنے بیان حلفی میں دونوں مقدمات کا بتا دیا تھا۔
درخواست گزار نے مؤقف پیش کیا کہ ریٹرننگ آفیسر نے میری نامزدگی پر اعتراض اٹھا کر کاغذات مسترد کیا، ان کے خلاف وارث خان تھانے میں 2 ایف آئی آرز درج تھیں.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ آپ درخواست دیتے ہیں تو ہم فوراً سماعت کے لیے مقرر کرتے ہیں مگر تیاری تو کر کے آئیں، کل ہمارے پاس ایک کیس تھا انہوں نے ضمانت لی تھی، آپ سچ بولنے کے لیے تیار نہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جس شخص کے خلاف 2 فوجداری ایف آئی آرز ہوئیں وہ پورے شہر بھر میں گھوم رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے محمد عارف عباسی کی اپیل خارج کردی۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ درخواست گزار نے دو فوجداری مقدمات ہونے کے باجود ضمانت کے لیے کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا اور کاغذات نامزدگی میں بھی مقدمات کا ذکر نہیں کیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ریٹرننگ آفیسر نے درخواست گزار سے بیٹے کی لندن میں موجود جائیدادوں کا پوچھا اس کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔