8 فروری کو متوقع عام انتخابات کے لیے سیاسی جلسوں اور کارنر میٹنگز کے دوران سیاسی امیدواروں سے ووٹرز ان کے منشور کے حوالے سے سوالات اور اپنے مسائل بیان کر رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے ووٹرز کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں امیدوار کامیابی کے بعد وفاداریاں تبدیل تو نہیں کریں گے۔
بلے کا نشان واپس لینے اور پارٹی ووٹرز کے خدشات کے باعث تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں اور انہیں ہر جگہ صرف ایک ہی سوال پوچھا جاتا ہے ’کیا وہ ووٹ لینے کے بعد بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘
ووٹ عمران خان کا، کیا آپ خان سے وفا کریں گے؟
گزشتہ روز تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اور سابق صوبائی وزیر تیمور سلیم جھگڑا حیات آباد کے علاقے میں انتخابی مہم میں مصروف تھے کہ پارٹی ورکرز نے ان سے سوالات کیے، ویڈیو کلپ میں ایک نوجوان تیمور جھگڑا کو ان کے منہ پہ کہا کہ ووٹ ان کا نہیں بلکہ عمران خان کا ہے اور وہ عمران خان کے نام پر ووٹ دیں گے۔
مزید پڑھیں
’ہم تو ووٹ دیں گے لیکن آپ نے پیچھے نہیں ہونا‘ ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تیمور جھگڑا نوجوان سے ہاتھ ملاتے ہیں اور یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ خان کو نہیں چھوڑیں گے، وہ سخت وقت میں بھی خان کے ساتھ رہے ہیں اور مستقبل میں بھی مضبوط کھڑے رہیں گے۔ ’نہ ہم نے خان کو پہلے چھوڑا تھا اور نہ اب چھوڑیں گے۔‘
صرف تیمور جھگڑا کو ہی نہیں بلکہ بلے کا نشان واپس لینے کے بعد پی ٹی آئی کے بیشتر حمایت یافتہ امیدواروں کو اس نوعیت کے سوالوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ووٹرز اور پارٹی ورکرز کھل کر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ خان کے نام پر ووٹ لے کر جیتنے کے بعد وہ کہیں پرویز خٹک یا کسی اور کے ساتھ نہ جا ملیں۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار قرآن پر حلف اٹھانے لگے
پارٹی ورکرز اور ووٹرز کو یقین دہانی اور 8 فروری سے پہلے ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار بھی قسم کھانے کے ساتھ ساتھ حلف اٹھانے پر بھی مجبور ہوگئے ہیں، پارٹی قیادت کے مطابق بلے کا نشان واپس نہ ملنے کے بعد ووٹرز کا اعتماد تھوڑا بہت متزلزل تو ہوا جس پر انہیں بھی خدشات ہیں۔
نام نہ بتانے کی شرط پر خیبر پختونخوا میں سینئر پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ بدقسمتی سے ان کی جماعت میں امیدواروں کا اپنا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے دوسری جانب ووٹرز عمران خان کے ساتھ ہیں، ماضی کے کچھ تلخ تجربات کی وجہ سے اب کارکنوں کو قائدین پر اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔
پی ٹی آئی ورکرز کو خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں جیت کر صوبے میں پرویز خٹک کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں، پشاور کے اکثر حلقوں میں امیدواروں نے ووٹرز کے سوالات کے باعث ان کا اعتماد حاصل کرنے اور یقین دلانے کے لیے کارنر میٹنگز میں قرآن پاک پر باقاعدہ حلف اٹھاتے ہوئے جیت کے بعد عمران خان اور پارٹی کے ساتھ وفادار رہنے کا عہد کیا۔
ووٹ ہمارا “إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ” کا، ہم تو ووٹ دیں گے لیکن آپ نے پیچھے نہیں ہونا، حیات آباد کے ایک ووٹر کے الفاظ۔
مجھے فخر ہے کہ میں آج اپنے ووٹرز کی آنکھوں میں آنکھیں ملاسکتا ہوں اور یہ کہہ سکتا ہوں کہ نہ ہم نے خان کو پہلے چھوڑا تھا اور نہ اب چھوڑیں گے۔ pic.twitter.com/6xOavi0488— Taimur Saleem Khan Jhagra (@Jhagra) January 25, 2024
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 9 مئی کے بعد مشکل حالات میں پارٹی رہنماؤں کی جانب سے راہیں جدا کرنے کے بعد پی ٹی آئی کارکن مایوس ہیں اور قیادت پر ان کا اعتماد کم ہوا ہے دوسری جانب بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے بعد ان کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔ سینئر صحافی فدا عدیل کے مطابق پی ٹی آئی میں ووٹ عمران خان کا ہے امیدواروں کا نہیں۔ ’بہت کم امیدوار ہیں جن کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ باقی سب خان کے نام پر ووٹ لیتے ہیں۔‘
صحافی عارف حیات کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ہر طرف مشکل سے دوچار ہیں، ان کے مطابق بلے کا نشان نہیں رہا اور ساتھ ہی کارکنوں کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں، امیدوار اب کارکنوں اور ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے قرآن پر حلف اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔’ کارکن ووٹ اس امیدوار کو دیں گے جس پر عمران خان کا اعتماد ہو۔‘
کیا پرویز خٹک کی نظرآزاد امیدواروں پر ہے؟
پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک نے تحریک انصاف اور عمران خان سے علیحدگی کے بعد نئی جماعت بناکر الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے کھلم کھلا وزیر اعلی بننے کا دعوٰی کر رہے ہیں، صحافی عارف حیات کے مطابق پرویز خٹک نے صوبائی اسمبلی کی 115 نشتوں کے لیے صرف 52 نشستوں کے لیے امیدوار میدان میں اتارے ہیں جبکہ وزیراعلی بننے کے لیے 73 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔
عارف حیات نے بتایا کہ پرویز خٹک کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، وزیرا علی کی کرسی تک پہنچنے کے لیے پرویز خٹک کی نظریں پی ٹی آئی کے آزاد اراکین پر ہیں۔ ’جو وہ اپنے ساتھ ملانے کی پوری کوشش کریں گے، پرویز خٹک کچھ اہم اراکین کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ممکن ہے کہ حکومت سازی میں وہ پرویز خٹک کا ساتھ بھی دیں۔‘