سائفر کیس: استغاثہ میں بھی سرکار صفائی بھی سرکار ٹرائل نہیں مذاق ہورہا ہے، عمران خان

ہفتہ 27 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

راولپنڈی اڈیالہ جیل میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم عدالت میں سائفر کیس کی سماعت ہوئی، وکلا صفائی کا کورٹ روم سے غائب ہونے پر معزز جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وکلا صفائی کو تیسری بار حاضری یقینی بنانے کی مہلت دے دی۔

عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا کے پیش نہ ہونے پر اسٹیٹ ڈیفنس کونسل مقرر دیے۔ جج ابوالحسنات نے حکمنامہ میں ملک عبدالرحمٰن کو سابق وزیر اعظم عمران خان، اور حضرت یونس کو سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے لیے ڈیفنس کونسل مقرر کیا۔

حکمنامے کے مطابق سرکاری وکیل ملزمان کی نمائندگی کرتے ہوئے گواہان پر جرح کرینگے۔

‏سائفر کیس کی سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی غصے میں آگئے اور اسٹیٹ ڈیفنس کونسل سے فائل چھین کر دیوار پر مار دی، جس پر جج نے ان کو وارننگ دی۔ اس دوران عمران خان کی بھی جج ابوالحسنات ذوالقرنین سے تلخ کلامی ہوئی۔

سائفر کیس میں گواہان کے بیانات پر ایک بار پھر جرح نہ ہوسکی، بانی پی ٹی آئی کے مرکزی وکلاء آج بھی پیش نہ ہوئے۔ ملزمان کی جانب سے معاون وکیل عثمان گل، خالد یوسف چوہدری پیش ہوئے۔ عدالت کے احکامات پر سرکاری وکلاء ایڈووکیٹ عبد الرحمٰن، حضرت یونس عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر ہی جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان شدید تلخی ہوئی، سرکاری وکلاء کو دیکھ کر بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سیخ پا ہوگئے۔ بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکلاء صفائی پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔

استغاثہ میں بھی سرکار، صفائی بھی سرکار، یہ تو مذاق ہورہا ہے، عمران خان

بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے موقف اختیار کیا کہ جن وکلا پر ہمیں اعتماد ہی نہیں، وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے؟ ہم تو نہ ان کو جانتے ہیں، نہ کبھی دیکھا ہے، یہ کیا ہمارا دفاع کریں گے، جج ابو الحسنات نے کہا کہ جتنا آپ کو ریلیف دیا جا سکتا تھا دیا گیا ہے، سائفر فراہمی کی بات ہو یا وکلا سے ملاقات، میں نے آپ کی درخواستیں منظور کیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے ریکارڈ پر 75 درخواستیں ہیں جو ملاقاتوں سے متعلق ہیں، جس پر بانی چیئرمین عمران خان بولے کہ آپ نے تو ملاقات کا آرڈر کیا لیکن ملاقات کرائی نہیں گئی، استغاثہ میں بھی سرکار، صفائی بھی سرکار، یہ تو مذاق ہورہا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ 3 مرتبہ تاریخ دی مگر اپ کے وکلا نے آنے کی زحمت نہیں کی، جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ سرکاری ڈرامہ نہیں چلے گا اس طرح سے ٹرائل کی کیا ویلیو رہ جائے گی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے لیے آسان تھا کہ ڈیفنس کا حق ختم کر دیتے، لیکن پھر بھی آپ کو اسٹیٹ ڈیفنس کا حق دیا۔ اس کسٹڈی کی وجہ سے مجھے یہاں جیل آنا پڑ رہا ہے۔

جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ وہ بھی تو کسی ماں کے بچے ہیں جن کے کیس جوڈیشل کمپلیکس میں چھوڑ کر آیا ہوں، میں آرڈر کرکر کے تھک گیا ہوں مگر آپ کے وکیل نہیں آتے، سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ اگر ٹرائل میں رکاوٹیں آتی ہیں تو عدالت ضمانت کینسل کر سکتی ہے۔

جج صاحب جیل میں کوئی خوشی سے نہیں رہتا، شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ضمانت کے فیصلے کا بھی مذاق اڑایا گیا، جیل سے باہر نکلتے ہی ایک اور کیس میں اٹھا لیا گیا۔ جس پر جج ابو الحسنات نے کہا کہ شاہ صاحب اس کیس کو لٹکانے کا کیا فائدہ ہے، شاہ محمود بولے کہ جج صاحب جیل میں کوئی خوشی سے نہیں رہتا، میں اپنا وکیل پیش کرنا چاہتا ہوں سرکاری وکیلوں پر اعتبار نہیں ہے۔ ابو الحسنات بولے کہ آپ اپنے وکیل کو بلا لیں۔

شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کے نامزد کردہ وکیلوں سے ڈیفنس کروایا جا رہا ہے، اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہو چکا ہے۔

’آپ نے فیصلہ سنانا ہے تو ایسے ہی سنا دیں، ہمیں اتنا حق نہیں کہ اپنے وکلاء کے ذریعے کیس لڑ سکیں، کیس کی کارروائی اردو میں ہونی چاہیے، سرکار کی طرف سے تعینات کیے گئے وکیل صفائی جو انگریزی بول رہے ہیں وہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی، جو کچھ ہو رہا ہے یہ شفاف ٹرائل کے تقاضوں سے متصادم ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایسا ٹرائل کبھی نہیں ہوا جواب ہورہا ہے‘۔

اوپن ٹرائل میں آپ کسی کو کیسے روک سکتے ہیں؟

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کالے کوٹ کی اتنی بے حرمتی پہلے نہیں ہوئی جو اب ہورہی ہے، انصاف کا گلا گھونٹا جارہا ہے، نہ اللہ کا ڈر ہے، نہ آئین و قانون کا ڈر ہے۔ سرکاری وکیلوں کو یہاں طوطا مینا کی کہانیوں کے لیے بٹھا دیا گیا ہے، ہمارے وکلا کو جیل کے اندر نہیں آنے دیا جا رہا۔ اوپن ٹرائل میں آپ کسی کو کیسے روک سکتے ہیں؟

عمران خان نے سرکاری وکلا صفائی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ مان نہ مان، میں تیرا مہمان۔ بانی پی ٹی آئی نے جج سے استدعا کی کہ ان گھُس بیٹھیوں کو تو باہر بھیجیں۔

جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین بولے کہ شاہ محمود قریشی صاحب اگر آپ جراح کرنا چاہتے ہیں تو خود بھی کر سکتے ہیں، میرے لیے آسان تھا کہ میں آپ کو دفاع کے حق سے محروم کر دیتا، شاہ محمود نے کہا کہ ہمیں اپنے مرکزی وکلاء سے بات کرنے کی اجازت دی جائے۔

جس پر عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل کو ملزمان کی وکلاء سے ملاقات کرانے کا حکم دے دیا اور جیل سماعت میں وقفے کے دوران میڈیا کو کمرہ عدالت سے باہر بھیج دیا۔

اس سے قبل گزشتہ روز سماعت کے دوران خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں وکلاء صفائی کی گواہوں پر جرح میں تاخیر اور عدم دلچسپی اور 2 مرتبہ مہلت کے باوجود پیش نہ ہونے پر حق جرح ختم کرنے سے متعلق اسپیشل پروسیکیوٹرز کے دلائل پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کیخلاف سائفر کیس کی سماعت کے موقع پر گواہوں پر جرح کے لیے ملزمان کے سینئر وکلاء صفائی عدالت میں پیش نہ ہوسکے تاہم ان کے معاون قمر عنایت راجہ اور خالد یوسف موجود تھے۔

عدالتی استفسار پر اسپیشل پروسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے بتایا کہ ملزمان کے وکلا کو عدالت نے پیشی کے لیے دو مرتبہ مہلت دی اگر وکلا صفائی روز التوا لیں گے تو ہمیں کس بات کی سزا ہے کہ روزانہ صبح صبح آجائیں، بعض گواہ جرح کے لیے دبئی سے آئے ہوئے ہیں۔

عدالت نے وکلا صفائی کو پیش ہونے کے لیے 2 مرتبہ کی مہلت ختم ہونے پر استغاثے کی جانب سے نامزد ملزمان کا گواہوں پر حق جرح ختم کرنے کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت اگلے روز تک ملتوی کر دی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp