آئیں تصور کریں

اتوار 28 جنوری 2024
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’پہلا تصور‘

کبھی ہم نے تصور کیا ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہوں، یا کھانا کھا رہے ہوں، یا سمجھ لیں ایسے ہی سرسری گفتگو جاری ہو اور اچانک کئی مسلح افراد گنیں تانے ہماری گھر میں بنا اجازت داخل ہوں اور گھر کے ایک مرد، جو ہو سکتا ہے  ہمارا بیٹا، بھائی، شوہر یا باپ ہو، اسے رائفلوں کے بٹ مارتے ہوئے، بوٹوں سے روندتے ہوئے، بالوں سے گھسیٹتے ہوئے ہم سب کی آنکھوں کے سامنے  گاڑی میں ڈال کر بنا کچھ بتائے چلتے بنیں اور ہم بے بسی سے سوائے آہ و زاری کرنے کے کچھ بھی نہ کر پائیں۔ ذرا سوچیں یہ کیسا روح فرسا منظر ہوگا؟

بلوچستان کے تقریباً ہر علاقے کے لوگوں کی زندگیاں ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہیں۔

جنہوں نے بلوچستان دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہاں کے  زیادہ تر علاقے نہایت پسماندہ ہیں۔  آواران، خاران، واشک، چاغی، خضدار، کوہلو، بار کھان اور شیرانی صرف چند مثالیں ہیں، جہاں بنیادی ضروریات زندگی تو چھوڑیے، گھر تک کچی مٹی کے بنے ہیں، جو کبھی سیلاب تو کبھی زلزلے سے ایسے صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں جیسے یہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔

چاغی وہ ضلع ہے جہاں مئی 1998 میں ایٹم بم کا زیر زمین دھماکا کیا گیا تھا۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی وہاں انسانوں اور جانوروں پر تابکاری کے اثرات موجود ہیں جبکہ جوہری تجربات کے بعد سے چاغی میں خشک سالی کے ساتھ پانی بھی ناپید ہوگیا ہے۔

حالات کے مارے بلوچستان کے باسیوں کی زندگی پچھلے 70 سال سے کسمپرسی کا شکار تو ہے ہی، اس پر بلوچ مردوں کی جبری گمشدگیاں، اغوا کر کے لاپتا کرنا اور مسخ شدہ لاشیں ملنا بھی روز مرہ کا معمول ہیں۔ جب ناانصافی کا دور دورہ ہو تو پھر آزادی اور بغاوت کے نعرے لگنے میں دیر نہیں لگتی۔ اگر کوئی فرد ریاست کا مجرم ہے تو اسے ملک کے آئین کے مطابق قانونی و عدالتی کارروائی کے ذریعے سزا دی جانی چاہیے نہ کہ جبری گمشدگی سلسلہ جاری رکھا جائے۔

’دوسرا تصور‘

ذرا تصور کریں کہ یخ بستہ سردی میں لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے بمباری سے تباہ ہونے والے اپنے گھروں کے ملبے پر بے یارو مددگار بیٹھے ہوں۔ کھانے پینے کو کچھ میسر نہ ہو، بجلی گیس ندارد، ہسپتال، بچوں کے اسکول اور اقوام متحدہ کے اداروں تک پر بمباری کرکے تہس نہس کر دیا گیا ہو کہ  وہاں بھی کوئی پناہ گزین زندہ نہ بچ جائے۔ 100 دن میں 25 ہزار انسان لقمہ اجل بن گئے ہوں جن میں 10 ہزار صرف معصوم بچے ہوں۔

ذرا حساب لگایے جناب، ایک دن میں 250 افراد موت کے گھاٹ اتار دیے جائیں اور اس بربریت کو نسل کُشی نہ کہا جائے؟ یہ وہ سرزمین ہے جو رفتہ رفتہ فلسطینیوں پر تنگ کی گئی۔ غزہ کی پٹی کی تقریباً 80 فیصد آبادی کو 2 سے 3 ماہ میں کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کوئی سڑک، بازار، ہسپتال، اسکول باقی نہیں بچا ہے۔ پھر بچ رہنے والے 20 فیصد علاقے کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم اس قوم کا وزیراعظم کر رہا ہے جس کی نسل کُشی دوسری جنگ عظیم میں جرمن آمر ایڈولف ہٹلر نے کی تھی، جس پر یہ قوم آج بھی گریہ و زاری کرنا نہیں بھولتی۔

اتنی تباہی بربادی کے باوجود اسرائیلی حکومت کی خون کی پیاس بجھ کر نہیں دے رہی۔ اس پر طرہ حماس کے حملوں کا، کہ ایک پھلجھڑی چھوڑ کر اسرائیل کو دوبارہ نہتے فلسطینیوں کو نیست ونابود کرنے کا سامان مہیا کر دیتی ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ 21ویں صدی میں جب بین الاقوامی جنگی اور انسانی حقوق کے قوانین موجود ہیں، اس کے باوجود پوری تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ دنیا کی حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

’تیسرا تصور ‘

 تصور کریں رات کے 8 بج رہے ہیں۔ ایک گندے نالے کے کنارے قطار سے بسیں کھڑی ہیں اور  ہر بس کے نیچے لوگ چادر بچھائے ایسے سو رہے ہیں جیسے بس کا نچلا حصہ ان کے گھر کی چھت ہو۔ بسوں کے درمیان  جو جگہ ہے اُسے ْباورچی خانے کے طور پر استمعال کیا جارہا ہے۔ وہاں کوئی عورت بیٹھی آٹا گوندھ رہی ہے، تو کوئی سبزی کاٹ رہی ہے۔ کہیں کچھ لوگ جو  ابھی بسوں کے نیچے  سونے کے لیے نہیں لیٹے وہ ابھی بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ آنے جانے والی گاڑیوں کے اردگرد انہی خاندانوں کے بچے بھیک مانگنے ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں۔ ان بچوں کے جسموں پر سوائے چتھڑوں کے کچھ بھی نہیں۔ ان  بسوں کی قطار سے آگے حد نگاہ تک ایک گنجان آبادی ہے جہاں ڈربے کے سائز کی کھولیوں میں انسان بستے ہیں۔ بھول بھلیوں کی پوری دنیا آباد ہے۔ گندگی کے ڈھیر اور بدبو اس آبادی میں رچی بس بسی ہے، نتیجتاً جہاں ہر چند سال بعد جان لیوا وبائیں ہزاروں  انسانی زندگیاں نگل جاتی ہیں۔

یہ دنیا کی بڑی کچی آبادیوں میں سے ایک چھونپڑپٹی ’دھاراوی‘ ہے جو تقریباً ممبئی کے وسط میں قائم ہے۔ اس چھونپڑپٹی کے مغرب میں جائیں تو مشہور زمانہ علاقہ  ’باندرا‘ ہے، جہاں بولی ووڈ کے اداکاروں، اسپورٹس کے کھلاڑیوں اور صنعتکاروں، سیاستدانوں اور مذہبی پیشواؤں کے عالیشان اور طلسماتی مکانات بنے ہوئے ہیں۔

باندرا کا انفراسٹرکچر دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ممبئی کے اس پوش علاقے کے ساتھ ہی ایک ایسا خطہ بھی ہے جہاں 10 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور غربت بھی ایسی کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔

آپ شاید سوچ رہے ہیں کہ یہ تینوں کوئی فلمی سین ہوں۔ جی بالکل ہم ایسے سین کئی فلموں میں دیکھتے ہیں، لیکن یہ تین ملکوں کے تین خطوں کی سچی کہانیاں ہیں جہاں انسان سے زیادہ اپنے مفادات، اپنی حاکمیت اور اپنی جابرانہ پالیسیوں پر فخر کیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم بھی نہیں کہ یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہے گا؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp