پیرس میں معروف پینٹنگ مونا لیزا پر سوپ کیوں پھینکا گیا؟

پیر 29 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پیرس کے لوور میوزیم میں مظاہرین کی جانب سے مشہور زمانہ پینٹنگ ’مونا لیزا‘ پر سوپ پھینکنے کے واقعہ کی ذمہ داری ماحولیاتی تحریک ’فوڈ ریسپانس‘ نےقبول کرلی ہے، حفاظتی شیشے کے سانچے کے پیچھے نمائش کے لیے رکھی گئی اس شہرہ آفاق پینٹنگ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

اس واقعے کی ایک ویڈیو میں مظاہرین کو بوتلوں میں بند نارنجی رنگ کے سوپ کو پینٹنگ کی جانب اچھالتے ہوئے اور ان میں سے بعض کو حفاظتی رکاوٹ کے نیچے چھپ کر تماشائیوں سے مخاطب ہوکر یہ پوچھتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے، ’زیادہ اہم کیا ہے، آرٹ یا صحت مند اور پائیدار غذا؟

ماحولیاتی گروپ جس کا مطلب ’فوڈ ریسپانس‘ بنتا ہے، نے کہا کہ ان کی مہم میں شامل 2 کارکن میوزیم میں وقوع پذیر اس احتجاج میں پیش پیش تھے، جو ایک عالمی رجحان کا حصہ ہے جہاں ماحولیاتی ایکٹیوسٹ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے فن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ مونا لیزا کی اس پینٹنگ کو مئی 2022 میں کسٹرڈ پائی کے حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن حفاظتی شیشے نے کسی قسم کے نقصان کو روکا تھا۔ اسی طرح کی کوششوں نے لندن کی نیشنل گیلری میں ونسنٹ وان گوگ کی “سن فلاورز” اور میڈرڈ کے پراڈو میوزیم میں گوگ کی پینٹنگز کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں نئے فرانسیسی وزیر اعظم گیبریل اٹل کی جانب سے وزیر ثقافت کے طور پر مقرر کیے جانیوالی رشیدہ دتی نے لوور میوزیم کے عملے کو اپنی تمام تر حمایت کا یقین دلاتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا ہے کہ ہمارے ورثے کی طرح مونا لیزا بھی آنے والی نسلوں کی امانت ہے، کوئی مقصد اسے نشانہ بنانے کا جواز فراہم نہیں کرتا۔

لوور میوزیم نے اس واقعہ کے بعد وہ کمرہ دوبارہ کھول دیا ہے، جس میں مونا لیزا کو رکھا گیا ہے، میوزیم کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تحریک کے دو کارکنوں نے مونا لیزا کی حفاظت کے لیے بکتر بند شیشے پر کدو کا سوپ پھینکا، لوور میوزیم کے سیکیورٹی عملے نے فوری طور پر مداخلت کی، میوزیم انتظامیہ اس سلسلہ میں شکایت درج کرارہا ہے۔

لیونارڈو ڈاونچی کا شاہکار ’مونا لیزا‘ لوور میوزیم میں لٹکی ہوئی دنیا کی سب سے مشہور پینٹنگ ہے، یہاں ہر سال لاکھوں سیاح اس چھوٹے سے آرٹ ورک کو ، جو صرف 2.5 فٹ سے زیادہ لمبا اور 2 فٹ سے کم چوڑا ہے، دیکھنے یا ا کے ساتھ تصویر کشی کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔

سولہویں صدی کے اوائل میں پینٹ کی گئی مصوری کے اس شاہکار مگر پراسرار پورٹریٹ کے لیے توڑ پھوڑ اور چوری دونوں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

اسے 1911 میں لوور کے ایک ملازم نے اسے چوری کرکے اس کا بین الاقوامی پروفائل بڑھایا، اور کینوس کے نچلے حصے کو 1950 کی دہائی میں تیزاب کے حملے کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں میوزیم نے بلٹ پروف شیشے سمیت اس پینٹنگ کے ارد گرد حفاظتی اقدامات کو بڑھا دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp