ایک صوفی مزار جس کی زیارت تمام مذاہب کے ہندوستانی کثرت سے کرتے رہتے ہیں، حال ہی میں اس وقت سرخیوں میں آیا جب ایک اعلیٰ سیاسی رہنما نے اعلان کیا کہ وہ اسے صرف ہندوؤں کے لیے ’آزاد‘ کرنا چاہتے ہیں۔
حاجی ملنگ درگاہ مغربی ریاست مہاراشٹر میں ممبئی کے مضافات میں ایک پہاڑی پر واقع ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ ایک عرب مبلغ کا مقبرہ ہے جو 700 سال پہلے ہندوستان آئے تھے، ہندوستان بھر میں بہت سے دوسرے صوفی مزارات کی طرح اس درگاہ کو، مذہبی تنازعہ کا مرکز ہونے کے باوجود، انضمام اور رواداری کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
حاجی ملنگ درگاہ تک چڑھائی کوئی آسان کارنامہ نہیں ہے، تقریباً 1,500 قدموں پر مشتمل چٹانوں کو تراش کر راستہ بنایا گیا ہے، جو زائرین کی منزل تک رسائی میں حائل رہتے ہیں، منزل، جو ایک صوفی بزرگ کا مقبرہ ہے، جو عقیدے، افسانوی داستان اور متنازعہ تاریخ کا مرکز بن چکا ہے۔
حاجی ملنگ کی درگاہ پر ہندو اور مسلمان دونوں ہی صوفی کے مقبرے پر پھول اور چادر جسے صوفی روایات میں احترام کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، پیش کر رہے تھے، عقیدہ یہ ہے کہ خالص دل سے مانگی گئی کوئی بھی خواہش پوری ہو جائے گی۔
مزار کا انتظامی بورڈ احترام بقائے باہمی کے اس احساس کی عکاسی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں بورڈ کے 2 ٹرسٹی مسلمان ہیں وہیں اس کے موروثی متولی ایک ہندو برہمن خاندان سے ہیں۔
تنازع کیا ہے؟
اس ماہ کے شروع میں، مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے نے ایک سیاسی ریلی میں اس درگاہ سے متعلق دہائیوں پرانے دعوے کو زندہ کر کے تنازعہ کو جنم دیا ہے، انہوں نے روایتی طور پر درگاہ سمجھے جانیوالی اس عمارت کو ہندوؤں کا ایک مندر قرار دیتے ہوئے اسے ’آزاد‘ کرنے کے اپنے عزم کا اعلان کیا۔
ان کا یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہندوستان میں کچھ نمایاں مساجد اور مسلمانوں کی تعمیر کردہ یادگاریں اس دعوے پر تنازعات میں گھری ہوئی ہیں کہ وہ صدیوں قبل ہندو مندروں کو گرا کر تعمیر کی گئی تھیں۔
1980 کی دہائی میں، مسٹر شندے کے سیاسی سرپرست، آنند دیگے نے ہندوؤں کے لیے حاجی ملنگ درگاہ بازیاب کرانے کی مہم کی قیادت کی۔ 1996 میں، انہوں نے مبینہ طور پر درگاہ کے پوجا کی غرض سے شیو سینا پارٹی کے 20,000 کارکنوں کی قیادت کی۔
اس کے بعد سے، سخت گیر ہندوؤں نے، جو اس درگاہ کو ملنگ گڑھ کہتے ہیں، پورے چاند کے دنوں میں مزار پر پوجا کرنے کا رواج جاری رکھا ہے، جو کبھی کبھار مسلمان عقیدت مندوں اور مقامی لوگوں کے ساتھ جھڑپوں کا باعث بنتا ہے۔
لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایکناتھ شندے کے موقف کا عقیدے سے کم اور دکھاوے سے زیادہ تعلق ہو سکتا ہے، آنند دیگے کی مہم نے ریاست مہاراشٹر میں ہندو ووٹروں کے درمیان ان کی اپیل کو خاصا بڑھاوا دیا تھا۔
قومی انتخابات سے الگ، ہندوستان کی سب سے امیر ریاست مہاراشٹر اس سال کے آخر میں ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالے گی۔ پرشانت ڈکشٹ، ایک سابق صحافی، سمجھتے ہیں کہ ایکناتھ شندے اب خود کو مہاراشٹر کے ‘ہندو نجات دہندہ’ کے طور پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،
’ریاست کے مخصوص سیاسی منظر نامے کے پیش نظر، مسٹر شندے کے لیے ہندو اکثریت کی حمایت حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔‘
لیکن ایکناتھ شندے کو ایک اضافی پیچیدگی کا سامنا ہے، 2022 میں وہ اور ان کے حامی شیو سینا سے منحرف ہو گئے تھے، اس بغاوت نے اس وقت کی سہ فریقی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جو شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کے غیر امکانی اتحاد پر مشتمل تھی، انہوں نے نئی حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کے ساتھ ایک نیا اتحاد قائم کیا تھا۔
تجزیہ کار پرشانت ڈکشٹ مانتے ہیں کہ قانون ساز پارٹیاں بدل سکتے ہیں، لیکن بنیادی ووٹروں کے لیے سیاسی وفاداریاں بدلنا مشکل ہوتا ہے۔ ’درگاہ کا مسئلہ اٹھا کر، ایکناتھ شندے امید کر رہے ہیں کہ وہ سابق شیو سینا کے بنیادی ووٹروں کے جذبات کو راغب کریں گے اور ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کریں گے۔‘
ابھیجیت ناگارے، جو ہر مہینے مزار پر جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ درگاہ کس مذہب سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ وہ وہاں جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ وہاں پر سکون محسوس کرتے ہیں۔
لوگ کیا کہتے ہیں؟
درگاہ پر آئے ہندو عقیدت مندوں نے وزیر اعلی ایکناتھ شندے کے تبصروں پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے، کشال مِسل، وزیر اعلٰی کی اس بات کو بیان کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ یہ مزار اصل میں ایک ہندو سنت کا تھا اور بعد میں ہندوستان پر حملوں کے دوران مسلمانوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس تنازع پر راجندر گائیکواڈ بھی ایسا ہی نظریہ رکھتے ہیں، اور وہ اس جاری بحث کے بارے میں بے چینی محسوس کرتے ہیں۔’بھارت میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بہت برا ہے، میرے لیے تمام دیوتا ایک ہیں۔‘
ابھیجیت ناگارے، جو ہر مہینے مزار پر جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ درگاہ کس مذہب سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ وہ وہاں جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ وہاں پر سکون محسوس کرتے ہیں۔
مزار کے معتمدوں میں سے ایک ناصر خان کا کہنا تھا کہ اس تنازع کی وجہ سے مزار پر آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں اور شرپسندوں کے ہاتھوں پریشان نہیں ہونا چاہتے ہیں، اس تنازع سے مقامی کاروباری اداروں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔