سائفر کیس کیا ہے؟

منگل 30 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سائفر کیس میں خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو 10 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی ہے، اس اہم پیش رفت کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو نہیں معلوم کہ آخر سائفر کہتے کسے ہیں۔

سائفر کیا ہوتا ہے؟

سائفر کسی بھی حساس، قومی سلامتی یا سیکیورٹی کے پیغام کو خفیہ انداز میں لکھنے کا نام ہے۔ جس میں کسی بھی معروف زبان کے بجائے کوڈز پر مشتمل زبان کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ کسی بھی عام سفارتی خط یا مراسلہ کی طرح دفتری زبان میں نہیں بلکہ کوڈڈ زبان میں لکھا جاتا ہے۔

کوڈڈ زبان کو کوئی بھی عام انسان ڈی کوڈ نہیں کرسکتا اور اسے خفیہ زبان مں لکھنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ کوئی بھی عام شخص اس پیغام کو پڑھ نہ پائے، اور یہی وجہ ہے کہ سائفر کو ڈی کوڈ کرنا صرف متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے اور اس کے لیے پاکستان کے دفتر خارجہ میں گریڈ 16 کے 100 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جنہیں سائفر اسسٹنٹ کہا جاتا ہے۔

سائفر کیس کیا ہے؟

27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں جلسے کے دوران ایک خط لہراتے ہوئے عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ یہ غیر ملکی حکومت کی جانب سے لکھا گیا سائفر ہے، جس میں ان کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

عمران خان پر سائفر کیس اس لیے بنایا گیا تھا کہ انہوں نے 2022 میں امریکا میں اس وقت تعینات پاکستان کے سابق سفارت کار اسد مجد کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کا انکشاف کیا جبکہ سائفر کو سفارتی سرکاری دستاویز کی حثیت حاصل ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے سرکاری دستاویز سائفر سے متعلق یہ کہا تھا کہ اپریل 2022 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔

لیکن یاد رہے کہ نہ صرف امریکی حکام کی جانب سے سائفر کی تردید کی گئی بلکہ پاکستانی حکومت بھی سائفر کے حوالے سے کہہ چکی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ امریکا نے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کی ہو۔

بعدازاں عمران خان کے خلاف سائفر کو عام کرنے کے جرم میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں قائم کی گئی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جبکہ حکومت کی طرف سے جیل میں مقدمہ چلانے کی وجہ عمران خان کی زندگی کو لاحق سنجیدہ نوعیت کے سیکیورٹی خدشات بتائے گئے تھے۔

عمران خان کو سائفر کیس میں 15 اگست 2023 جبکہ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن وہ گرفتاری سے قبل توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے پر اٹک جیل میں زیر حراست تھے اور ان سے اٹک جیل میں ہی سائفر کیس کی تفتیش کی گئی اور ابتدائی طور پر خصوصی عدالت اٹک جیل میں جا کر سماعت کرتی رہی۔

عمران خان توشہ خانہ کیس میں اپنی سزا کی معطلی کے باوجود سائفر کیس کی وجہ سے اٹک جیل میں ہی رہے، بعد ازاں عمران خان کی ہی درخواست پر انہیں اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کردیا گیا جہاں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت جا کر سماعت کرتی رہی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp