معذور افراد کا الیکشن

بدھ 31 جنوری 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ تیس لاکھ کے قریب معذور افراد ہیں۔ یہ تعداد بالکل بھی درست نہیں مانی جاسکتی، اس لیے کہ درست اعداد و شمار کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔

نہ تو مردم شماری میں ان لوگوں کو درست طریقے سے شمار کیا گیا، نہ نادرا کے پاس اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں کی معذوری کا درست ریکارڈ ہے اور نہ ہی ڈبلیو ایچ او کی اس رپورٹ کو درست مانا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں دس فیصد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔

معذور افراد معاشرے کا وہ نظرانداز طبقہ ہیں جن کے شمار میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ جو تخمینہ میں نے ابتدا میں دیا، یہ ایک اندازہ ہے جو مختلف سرویز میں دیا گیا ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہم معذور افراد کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اسی پر ہم ان کے لیے وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں جن کے ثمرات ان تک کبھی نہیں پہنچتے۔ اسی بنیاد پر ان کے اسکول کھولے جاتے ہیں جہاں نااہل لوگوں کی سرکاری بھرتیاں کی جاتی ہیں جو معذور افراد کے مقدر کو مزید تاریک کر دیتے ہیں۔

انہی مفروضہ اعداد و شمار کی بنا پر بجٹ میں معذور افراد کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں۔ اسی تعداد کو مدنظر رکھ کر اسپیشل ایجوکیشن کے تمام فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن آج کا موضوع معذور افراد کے درست اعداد و شمار نہیں بلکہ الیکشن میں معذور افراد کے کردار کے بارے میں ہے۔

دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں تحریک انصاف نے ایک کروڑ انہتر لاکھ، پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک کروڑ  انتیس لاکھ  جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے محض انہتر لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ یہ ووٹ بائیس  کروڑ کی آبادی میں سے ڈالے گئے تھے۔ اگر ہم پارٹیوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کا جائزہ لیں اور پاکستان میں معذور افراد کی تعداد کے تخمینے کا جائزہ لیں تو تیس لاکھ ووٹ کسی بھی پارٹی کا مقدر بدل سکتے تھے۔

اس کالم کے ذریعے دراصل سیاسی پارٹیوں کو یہ لالچ دینا مقصود ہے کہ اگر وہ معذور افراد کے لیے کام کریں تو ایک بڑی تعداد میں ووٹ ان کے ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ پچیس سال تک معذور افراد کے لیے کام کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک سیاسی جماعتوں کو اپنی بقا کا لالچ نہیں ہوگا اس ملک کے معذور افراد کی حالت نہیں بدلے گی۔ اس سلسلے میں معذور افراد کو بھی اپنی آواز بلند کرنا پڑے گی۔ اپنے آپ کو ایک انتخابی پریشر گروپ کے طور پر سامنے لانا ہو گا۔

پارٹیوں کے منشور سامنے آ چکے ہیں، کسی پارٹی نے اپنے منشور میں معذور افراد کے لیے کسی خاص پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ کسی کی طرف سے کسی معذور فرد کو امیدوار بنانے کا ٹکٹ نہیں دیا گیا، کسی جلسے میں انہیں شمولیت نہیں کرائی گئی، اس کالم کے بعد ہو سکتا ہے کہ چند روایتی سے بیان آ جائیں مگر اس سے صورت حال نہیں بدلےگی۔ معذور افراد کی حالت اس ملک میں اتنی دگرگوں ہے کہ فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اب کسمپرسی کا عالم مزید کوتاہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

سیاستدانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اگر ان کو معذور افراد کے ووٹ درکار ہیں تو اس کے لیے انہیں زیادہ تگ ودو کرنے کی ضرورت نہیں۔ نہ سڑکیں بنوانی ہیں، نہ اورنج لائن ٹرین چلانی ہے، نہ کوئی سونامی درکار ہے، نہ تین سوپچاس ڈیم بنانا ہوں گے، نہ لوڈ شیڈنگ ان کا مسئلہ ہے، نہ صحت کی سہولتوں کا اعلیٰ معیار ان کا مطالبہ ہے نہ پانی ڈیم ان کا مسئلہ ہیں، نہ ترقی کے منصوبے ان کو چاہئیں۔

ان کے مطالبات بہت سادہ ہیں، انہیں عزت دی جائے، انہیں احترام دیا جائے، ان کے جو چند اسکول ہیں وہاں کتابیں مہیا کر دی جائیں، اگر یہ ملازمت کے حصول کے لیے جائیں تو ان کو دھتکارا نہیں جائے، ان کی وہیل چیئر کا باتھ روم تک جانے کا رستہ بنا دیا جائے، سیڑھیاں جہاں ہوں وہاں ایک چھوٹا سا ریمپ بھی بنا دیا جائے تاکہ وہیل چیئر عمارت کے اندر داخل ہو سکے۔

بریل کی کتابیں دستیاب ہوں، سفید چھڑیاں دستیاب ہوں۔ اسکولوں میں داخلے کو اذیت ناک نہ بنا دیا جائے، امتحان دینے کی اجازت دے دی جائے۔ بس اتنے سے مطالبات ہیں، ان کے سوا ان کو فی الوقت کچھ نہیں چاہیے۔ ان کے یہی مطالبات پورے ہو جائیں تو ان کی زندگیاں بہت بہتر ہو جائیں لیکن سیاسی پارٹیوں کو اس کا ہوش ہی کہاں ہے۔

آپ کو شاید ان باتوں کی سمجھ نہ آئے۔ میں مثال دے کر سمجھاتا ہوں۔ اوپر دیے گئے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ ہر عمارت میں جسمانی طور پر معذور افراد کی وہیل چیئر کو باتھ روم میں جانے کا رستہ ہونا چاہیے۔ چھوٹی سی بات ہے۔

لیکن یہ چھوٹی سی سہولت نہ ہونے کے سبب پاکستان میں زیادہ تر جسمانی طور پر معذور افراد گردوں اور مثانے کی بیماریوں سے مر جاتے ہیں اس لیے کہ جب اسکولوں ، کالجوں اور دفتروں میں یہ سہولتیں نہیں ہوں گی تو یہ افراد حاجت کی صورت میں صرف ضبط کریں گےاور اتنے ضبط کا اثر ان کے گردوں پر پڑتا ہے جس سے بے شمار وہیل چیئر استعمال کرنے والے پاکستانیوں کی موت ہو جاتی ہے۔

الیکشن کے حوالے سے بھی سوچنا ہوگا کہ ان کے ووٹ کے حصول کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ معذور افراد کو پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کے لیے کیا ٹرانسپورٹ موجود ہے؟

کیا نابینا افراد کے لیے بریل میں بیلٹ پیپر شائع کیے گئے ہیں؟ کتنے معذور افراد کے شناختی کارڈ بنے ہیں اور کتنے لوگ اس دور میں بھی اس سہولت سے محروم ہیں؟ کیا معذور افراد کے ساتھ کسی مددگار کو پولنگ بوتھ میں جانے کی اجازت ہو گی؟ کیا پولنگ کا عملہ معذور افراد کی مدد کرنے کو تیار ہو گا؟ کیا اس سلسلے میں پولنگ کے عملے کو کسی بھی قسم کی ٹریننگ دی گئی ہے؟

کیا ہر پولنگ بوتھ میں وہیل چیئر پہنچنے کا انتظام کیا گیا ہے؟ کیا قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لیے ووٹ ڈالنے کا طریقہ سائن لینگویج میں دستیاب ہے؟ ذہنی معذور افراد کے لیے الیکشن کمیشن کا کیا حکم ہے؟ کیا سیکورٹی اسٹاف کو یہ پتہ ہے کہ نابینا افراد کی سفید چھڑی ہتھیار کے زمرے میں نہیں آتی؟ کیا کسی چینل پر قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لیے اشاروں کی زبان میں نتائج بتانے کا انتظام کیا گیا ہے؟

اگر یہ سب نہیں کیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ تیس لاکھ افراد کے ووٹ کاسٹ کروانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ حالانکہ  اس پہلو پر تو جہ دی جاتی تو یہ تیس لاکھ لوگ کسی کی پارٹی کا مقدر بدل سکتے تھے۔

بہت دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا طریقہ سوچوں کہ کسی طرح معذور افراد کو معاشرے میں احترام ملے، مساوی حقوق ملیں۔

آج بہت سوچ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں کہ اگر سیاستدانوں کو تیس لاکھ ووٹوں کا لالچ ملے تو شاید وہ معاشرے کے اس نظر انداز طبقے کے بارے میں کچھ سوچنے پرتیار ہو جائیں ۔

اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح ان لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ ہاں ایک اور طریقہ بھی ہے۔ ابھی خیال آیا ہے کہ اگر معذور افراد کو الیکشن میں’جیپ‘ کا نشان الاٹ کر دیا جائے تو ان کے سب دلدر دور ہو جائیں۔

راتوں رات قسمت بدل جائے، سب طعنے اور تحقیر ایک نشان کی بدولت مٹ جائیں۔ لوگ ان کو مساوی تو کیا اپنے سےاعلیٰ درجہ دے دیں گے۔

ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا، سارے حقوق ان کے حقوق ہوں گے۔ یہ اپنے اپنے علاقے میں راج کریں گے۔ بس! ایک نشان کی بدولت پھر کوئی محرومی کی شکایت نہیں کرے گا۔ ٹھکرائے ہوئے اچانک ممتاز ہو جائیں گے، مختار ہو جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp