ووٹ ضرور دو بھلے پولنگ اسٹیشن تک جانا پڑے

منگل 6 فروری 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کون کس کا لاڈلا ہے؟ کس کا منشور زمین پر اور کس کا پانی پر لکھا ہوا ہے۔ کس کی تقریریں ووٹر کے دل کو چھو رہی ہیں اور کون محض صوتی آلودگی بڑھا رہا ہے۔ نئی حکومت کتنی اپاہج یا بااختتیار ہو گی اور اس میں معاشی اژدھے سے نپٹنے کا کتنا اسٹیمنا ہو گا؟ اب اس بحث کا وقت گزر چکا۔ جمعرات ڈی ڈے ہے۔ بارہویں بار لگ بھگ 13 کروڑ ووٹروں میں سے کم ازکم نصف کے قطار میں لگنے کا وقت ہے لہٰذا اس مناسبت سے کچھ بنیادی معلومات کی آگہی ضروری ہے۔

جس قومی اسمبلی کو آپ منتخب کرنے والے ہیں وہ 342 ارکان پر مشتمل ہو گی۔ ان میں سے آپ کو براہ راست 272 نمائندے چننے ہیں۔ باقی رھ گئیں 70 نشستیں۔ ان میں سے خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی 10 مخصوص نشستیں ہر پارٹی جنرل سیٹس جیتنے کے تناسب کی بنیاد پر لے اڑے گی۔ یہ معاملہ الیکشن کمیشن اور پارٹیوں کے درمیان ہے۔ اس سے بحثیت عام ووٹر آپ کا لینا دینا نہیں۔

آپ کو جمعرات بروز 8 فروری جو 272 نمائندے براہ راست منتحب کرنے ہیں ان میں سے 164 نمائندے گزشتہ انتخاب ( جولائی 2018) میں 6 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتے تھے اور ان 164 میں سے بھی 87 نشستیں ایک ہزار یا اس سے کم ووٹوں کے فرق سے جیتی یا ہاری گئی تھیں۔

اس کا مطلب کیا ہوا ؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر 272 جنرل سیٹوں میں سے 164 سیٹوں پر کم از کم  6 ہزار اضافی ووٹ پڑ جائیں تو گیم پلٹی جا سکتی ہے۔ سب اندازے دھرے کے دھرے رہ سکتے ہیں۔ بہت سارے اپ سیٹس ہو سکتے ہیں۔ پولنگ کے بعد بچھنے والی شطرنجی بساط تتربتر ہو سکتی ہے.

مگر یہ کام کون کر سکتا ہے؟ 40 برس سے اوپر کے ووٹرز شاید نہیں کریں گے کیونکہ ان کے ذہن پہلے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ خیالات بدلنا اور فریم سے باہر نکل کے سوچنا مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ ( اس فیکٹر کو سنجیدگی سے لیجیے گا کیونکہ یہ مجھ 62 سالہ بڈھے کا تجربہ ہے)۔

کیا یہ کام 46 فیصد رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کر سکتی ہیں؟ اگر وہ جمعرات کی صبح ہانڈی چولہا یا ایک شام پہلے ضروری کام کاج نمٹا لیں۔ دوپہر تلک جتھوں کی شکل میں پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچیں اور اپنے مردوں  اور محلے کے سیاسی ورکرز کو مجبور کریں کہ آنے جانے کی سواری مہیا کریں۔ بصورتِ دیگر کم از کم گھر کے مرد جمعرات کے دن اپنے کھانے پینے کا بندوبست خود کریں۔

(آپ چونکہ میری اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں جیسی ہیں لہذا آپ سے راز کیا چھپانا۔ یہ جو مرد جاتی ہے نا۔ یہ تب تک ہی دبکے شبکے دیتا ہے جب تک عورت سنتی ہے۔ ایک بار آپ کھڑی ہو کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بس ایک لفظ کہنا۔ ’کیا‘۔ اس کے بعد اس مرد کی وہ حالت ہوتی ہے جو شیرنی کے سامنے دھاڑنے والے شیر کی ہوتی ہے)۔

دوسرا کردار جو سارے پیشگی اندازے اور گنتی ہوا میں اڑا سکتا ہے وہ ہے نوجوان ووٹر۔ 2 کروڑ 35 لاکھ نئے ووٹر پہلی بار اپنا حق استعمال کر سکتے ہیں۔ پرانے یا کھانگڑ ووٹر جائیں نہ جائیں آپ ضرور جاییے گا۔

یقین کیجیے آپ کو پہلا ووٹ ڈال کے اتنی ہی خوشی ہو گی جتنی تب ہوئی تھی جب آپ نے پہلا قدم اٹھایا تھا، پہلا  کھلونا خریدا تھا، پہلی بار سائیکل یا موٹر سائیکل چلائی تھی، پہلی بار کسی کو نظر بھر کے دیکھا تھا اور دل میں کتکتاری سی محسوس کی تھی۔ پہلی کتاب خریدی تھی اور پہلے دن اسکول میں قدم رکھا تھا یا پہلی کمائی ماں کے ہاتھ پر دھری تھی۔ یہ سوچ کے ووٹ کی پرچی بھریے گا کہ آپ ہی اس وقت وہ رکنِ اسمبلی ہیں جسے نئی حکومت کا انتخاب کرنا ہے۔

اگر آپ کی عمر 18 سے 35 برس کے درمیان ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کی تعداد 100 میں سے 47 ہے ۔ یعنی 5 کروڑ 47 لاکھ۔ سنہ 1970 سے اب تک 11 الیکشن ہوئے ہیں اور آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے پونے 2 کروڑ سے زیادہ ووٹ نہیں لیے۔ اب سوچیے کہ اگر آپ 5 کروڑ 47 لاکھ میں سے آدھے بھی جمعرات کو پولنگ میں حصہ لے لیں تو شاید آپ کسی ایسی پارٹی کو منتخب کر سکیں جو آپ کے خیال میں سنجیدگی سے اپنے یا اشرافیہ سے زیادہ آپ کے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہو۔

معلوم نہیں  آپ کو کسی نے بتایا یا نہیں۔ جناح صاحب پاکستان ہرگز نہ بنا سکتے اگر آپ جیسے 18 سے 35 برس کے دیوانے ان کے دست و بازو نہ بنتے۔ ایوب خان کرسی پر ہی اپنی سیاسی و طبعی مدت پوری کرتے اگر آپ لوگ سڑکوں پر نہ نکلتے۔ یہ آپ ہی ہیں جن کے دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر پاکستان کو پہلا جمہوری الیکشن نصیب ہوا۔
آپ کے ایج گروپ سے مجھے بس یہ شکوہ ہے کہ باتیں تو آپ بڑی لمبی چوڑی کرتے ہیں۔ طیش آ جائے تو گالم گلوچ میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں لیکن جب ووٹ  کا دن آتا ہے اس روز بھی آپ یا تو دیر سے اٹھتے ہیں یا پھر چھٹی کا دن سمجھ کے ضائع کر دیتے ہیں۔ اسی لیے اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ آپ کے ایج گروپ نے کبھی بھی 25 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں دیے۔

میں ایک بار پھر یاد دلا دوں کہ جن 272 جنرل سیٹوں پر سنہ 2018 میں انتخابات ہوئے تھے ان میں سے 164 سیٹوں کا فیصلہ 6 ہزار ووٹوں تک  کے فرق سے ہوا تھا۔ جبکہ حکومت بنانے کے لیے کم ازکم 172 سیٹیں چاہییں۔

اب بھی اگر آپ نے ووٹ نہ دیا تو آپ سے برا کوئی نہ ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp