الیکشن نتائج کا انتظار سب سے زیادہ قیدی نمبر 804 کو ہوگا

جمعرات 8 فروری 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستانی سیاستدان پبلک میں جو مرضی کہتے رہیں۔ ان کو بہت اچھی طرح الیکشن میں اپنی صورتحال، جیت ہار کا پتا ہوتا ہے۔ ایک ایک ووٹ وہ گن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کس گاؤں محلے میں کون ناراض ہے، اس گھر کے کتنے ووٹ ہیں۔ راضی ہوگا یا نہیں ہوگا۔ نہ ہوا تو اس کا متبادل کیا ہے۔ یہ سب انہیں معلوم ہوتا ہے۔ ویسے وہ بھولے بنے رہتے ہیں۔ ہار جائیں تو بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہو گئی۔ جیت جائیں تو وہ تاریخی فتح ہوتی ہے۔

اس بار الیکشن بہت الگ ہیں۔ کپتان حکومت گرانے کو اکٹھی ہونے والی بڑی جماعتیں آپس میں ایک دوسرے کو چیلنج دیے کھڑی ہیں۔ بلاول بھٹو مسلم لیگ نون کو ہٹ ہٹ کر سنا رہے ہیں۔ خود لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کی تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں الیکشن نتائج معلوم ہیں۔ پی پی اپنا سندھ بچالے گی اور پرانی تنخواہ پر کام کرے گی۔

خیبر پختونخوا میں دو تین سیٹ کا اضافہ متوقع ہے۔ کچھ بلوچستان سے دال دلیہ ہو جائے گا۔ ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ حکومت ہی بن جائے۔ پی پی کے ایک بڑے سمجھ دار سیاسی راہنما ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نون پنجاب میں مضبوط ہے۔ مسلم لیگ نون کا پنجاب بھی بڑا ہے۔ اس پنجاب میں اسلام آباد شامل ہے اور یہ ہزارہ تک وسیع ہے۔ ایک سو انچاس سیٹوں پر مشتمل اس پنجاب میں مسلم لیگ نون نے 138 امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔ پی پی لیڈر کا کہنا تھا کہ ان سارے امیدواروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اوسط پچہتر ہزار ووٹ لینے کے قابل نہ ہو۔ کچھ ایسے ہیں جو لاکھ ووٹ سے اوپر لیتے ہیں۔

اتنے ووٹ گھر سے لیکر چلنے والے امیدوار کو الیکشن کا نتیجہ کچھ نہیں کہتا۔ وہ ہارے یا جیتے غیر متعلق نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ نون نے بہت اچھے پینل بنائے ہیں۔ ان کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار قومی اسمبلی جیتنے کے قابل ہیں۔ تسلی سے بیٹھ کر بنائی الیکشن حکمت عملی، الیکشن ڈے پرفارمنس کے لیے دستیاب مشینری۔ اپنے مخالف امیدواروں کو بٹھانے اور غیر مؤثر کرنے کے لیے ان کی حکمت عملی سب سے بہتر ہے۔ مسلم لیگ نون کو پنجاب میں ہرانے کے لیے جو وسائل، رابطے، حکمت عملی، کارکنان درکار ہیں وہ کسی جماعت کے پاس موجود نہیں ہیں۔

مسلم لیگ نون کے بارے میں پی پی رہنما کی رائے دلچسپ تو ہے ہی حریف کی جانب سے اعتراف بھی ہے۔ یہ اعتراف کرنے کے بعد ہی کوئی ایسی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے جو ایسی جماعت کو شکست دے سکے۔ مسلم لیگ نون کو پنجاب میں شکست دینے کی صلاحیت پی ٹی آئی کے پاس ہی تھی ۔

پی ٹی آئی بہت مقبولیت کے باوجود منتشر ہے۔ نہ الیکشن مہم چلا سکی ہے۔ نہ پارٹی کے پاس انتخابی نشان موجود رہا۔ ایک ایک حلقے سے کئی امیدوار میدان میں ہیں۔ الیکشن مہم یہ پارٹی مربوط انداز میں چلا نہیں سکی۔ وکیلوں پر ان کا انحصار ہے۔ الیکشن ڈے پر ایک دن کا خرچہ کئی ملین روپے ہوتا ہے۔ کئی ملین فیس لینے والے وکلا طبعیت ایسی رکھتے ہیں کہ کسی کو فون کرنے کی بجائے مس کالیں مارتے رہتے ہیں کہ یہ چار آنے کی کال بھی کوئی دوسرا ہی ان کے لیے کرے۔

اپنے مضبوط گڑھ خیبر پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی شائد ایک تہائی سیٹوں تک ہی محدود رہ جائے۔ اس کی وجہ اندرونی انتشار، غیر منظم انداز اور غیر مؤثر الیکشن کمپین ہی ہوگی۔ اگر پارٹی پر سخت وقت ہے تو سیاست میں تو ایسے وقت آتے رہتے ہیں۔ سیاست تو امکانات پیدا کرنے اور اپنے لیے راستے تلاش کرنے کا نام ہے۔

آج سویرے پولنگ شروع ہونے سے پہلے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے پہنچا، تب بھی پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنے کو لوگ آئے ہوئے تھے۔ اس پولنگ پر پی ٹی آئی امیدوار کے پولنگ ایجنٹ موجود نہیں تھے۔ باقی امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ بھی پولنگ شروع ہونے کے بعد آ رہے تھے۔ جبکہ پرانی پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹ موقع پر بیٹھے جمائیاں لے رہے تھے۔

الیکشن کا سب سے زیادہ انتطار قیدی نمبر 804 کو ہوگا۔ لوگ اتنی بڑی تعداد میں اسے ووٹ ڈالنے کے لیے گھر نکل آئیں ایسا انقلاب آتا دکھائی نہیں دیتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp