اوس پڑے انتخابات

جمعرات 8 فروری 2024
author image

دانش ارشاد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ شب اسلام آباد میں کوئٹہ ہوٹل پر چائے کے لیے بیٹھا تھا۔ بیٹھے، بیٹھے خیال آیا کہ منیجر سے پوچھوں ووٹ دینے کیوں نہیں گئے؟پوچھا تو وہ بتانے لگا کہ ان کو سٹاف سمیت اپنے علاقے تک پہنچنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس سب بکھیڑے کے بعد بھی ووٹ کا پتا نہیں کہ گنتی میں آئے گا یا نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دیکھو نا آج دھماکے ہوئے ہیں ایسے میں جان خطرے میں ڈال کر کس لیے ووٹ دینے جاتے؟ یہی صورتحال جڑواں شہروں کے کوئٹہ ہوٹلز کی تھی، بیشتر ہوٹلز مکمل سٹاف کے ساتھ کھلے تھے اور ان کو ووٹ دینے سے کوئی غرض نہیں تھی۔

حساس علاقے کے لوگوں کی جانب سے ریاست کے لیے ایسا گمان درست ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ لیکن نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے الیکشن کی صبح موبائل اور انٹرنیٹ سروس غروب کر دی جس پر سیاسی جماعتوں اور عالمی اداروں کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی۔ لیکن کوئی بھی ادارہ انٹرنیٹ سروس کی بندش کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوا۔

جڑواں شہروں(راولپنڈی، اسلام آباد) میں پولنگ سٹیشنز پر خاصا رش رہا تاہم سڑکوں پر زیادہ سنسانی دیکھنے کو ملی اس کی بڑی وجہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی بندش معلوم ہوتی ہے کیونکہ لوگ ایسی جگہ رکتے جہاں ان کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر آ سکے۔ جڑواں شہروں میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی پولنگ سٹیشنز کا رخ کیا لیکن ہر طرف سے یہ شکایت سننے کو ملی کہ پولنگ کا عمل سست ہے اور خدشہ ہے کہ مقررہ وقت میں وہ اپنا ووٹ پول نہیں کر سکیں گی۔ شام تک اکثر پولنگ سٹیشنز کے سامنے خواتین کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی رہی۔ اس قدر تعداد میں خواتین کا اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے نکلنا حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں جمہوریت کے استحکام کا پیغام بھی ہو سکتا ہے۔

خواتین ووٹرز کی بڑی تعداد کا نکلنے سے قبل حیرت انگیز یہ بھی تھا کہ ان انتخابات میں خواتین کی غیر معمولی تعداد نے انتخابات میں حصہ لیا الیکشن کمیشن کی اعداد و شمار کے مطابق ان انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد 882 تھی جن میں سے قومی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین امیدواروں کی تعداد 312 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد 570 تھی۔ مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ان سے الگ ہیں۔

ان انتخابات میں پہلی مرتبہ ایک ہندو خاتون اور دو خواجہ سراء امیدواران نے بھی براہ راست انتخابات میں حصہ لیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں برداشت کی قوت بڑھ رہی ہے اور معاشرہ سب کو قبول کرنے کو تیار ہو رہا ہے۔ انتخابات سے ایک دن قبل بلوچستان میں دو بڑے دھماکے خوف پھیلانے کے لیے کافی تھے لیکن پھر بھی الیکشن کے دن عوام کا باہر نکلنا سیاست اور معاشرے میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عوام اپنے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔ آج کوئی بڑا سانحہ رونما نہ ہونا بھی خوش آئند ہے الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ کے اختتام کے وقت تک ان کو پورے پاکستان سے 76 شکایات موصول ہوئیں جن کو حل کر لیا گیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی مخالفین کی سوشل میڈیا کی لڑائی کا زمین پر آنے کے جو خدشات تھے وہ درست نہیں تھے اور عوام پرامن رہے۔ ان انتخابات کو پوری دنیا دیکھ رہی تھے عالمی میڈیا نے عمران خان کے جیل میں ہونے اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو انتخابی نشان نہ ملنا اور پھر انتخابی مہم میں رکاوٹیں ڈالے جانے پر انتخابی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال بھی انٹرنیشنل میڈیا پر زیر بحث رہی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا بھی ایک بیان سامنے آیا جسے پاکستان کے دفتر خارجہ نے مسترد کرتے ہوئے اسے داخلی معاملہ قرار دیا۔

عالمی میڈیا کے چند اہم تبصروں میں نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، سی این این اور الجزیرہ سمیت کئی دوسرے اداروں کے تبصرے شامل ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کے الیکشن دہشتگردی کی کاروائیوں اور انتخابی عمل کے غیر منصفانہ ہونے کی شکایات تلے ہو رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ پاکستان میں حکومت کی مسلسل تیسری مرتبہ جمہوری انداز میں منتقلی ہو رہی ہے ساتھ ہی اخبار نے عمران خان کے جیل میں ہونے کی بنیاد پر لکھا کہ یہ انتخابات سب سے کم قابل اعتبار ہوں گے۔

سی این این نے عمران خان کی قید کو بنیاد بنا کر لکھا کہ پاکستان کے یہ انتخابات دو خاندانوں کے درمیان نظر آتے ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا کی تنقید اور دھاندلی کے خدشات کے باوجود کراچی میں جماعت اسلامی کے ایم کیو ایم پر اعتراض کے سوا کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کی جانب سے دھاندلی کے کوئی سنگین الزامات سامنے نہیں آئے اور اس کے ساتھ پر امن انتخابات کا انعقاد اس بات کو دلیل فراہم کرتا ہے کہ پولنگ کے دوران دھاندلی کے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں ہوئے جیسا کہ ماضی میں شکایات سامنے آتی رہی ہیں اور 2018 کے انتخابات میں سب سے زیادہ اعتراض ڈسکہ پر رہا تھا جس پر بعد ازاں سپریم کورٹ میں جمع ہونے والی رپورٹس بھی واضح تھیں کہ وہاں بڑے پیمانے پر خرابی ہوئی ہے۔

عالمی میڈیا کی اس تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس وقت پاکستانی انتخابات میں حصہ لینے والے کئی امیدواران جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جن میں خواتین امیدواران بھی شامل ہیں۔

اس الیکشن کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ 18 ہزار سے زائد امیدواران میں سےلگ بھگ 11 ہزار نے آزاد حیثیت سے حصہ لیا۔ اس وقت جب یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور ٹی وی سکرینوں پر نتائج چل رہے ہیں تو اس میں آزاد امیدواروں بالخصوص تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد کو سیاسی جماعتوں کے امیدواروں پر سبقت حاصل ہے۔ یہ تعداد اس وقت تک مسلم لیگ ن کے لیڈ حاصل کرنے والے امیدواروں کے مقابلے میں دگنی ہے جو کہ غیر متوقع ہے۔ خیر، اصل نتائج تو الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کرنے پر ہی معلوم ہو سکیں گے۔

پاکستان کے یہ انتخابات انتہائی غیر یقینی صورتحال کا شکار رہے ہیں اس کی وجہ معاشی اور سیکیورٹی کی صورتحال کے ساتھ ساتھ چند سیاسی جماعتوں کی مخالفت بھی تھی لیکن سپریم کورٹ کے حکم نامے کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جو سپریم کورٹ کے مطابق پتھر پر لکیر تھی اور حقیقتا ًایسا ہی ہوا۔ اسی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے نگران حکومت پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ تک قائم رہنے والی نگران حکومت بھی بنی۔

نتیجہ بھی چند گھنٹوں میں سامنے آ جائے گا تاہم خوش آئند یہ ہے کہ مسلسل تیسری مرتبہ جمہوری انداز میں اقتدار کا انتقال ہو گا اور اس کے ساتھ خواہش یہ بھی ہے کہ جمہوریت کے اس تسلسل کو مزید مضبوط بناتے ہوئے منتخب وزیر اعظم بھی اپنی آئینی مدت پوری کر سکے گو کہ گزشتہ دور میں وزیر اعظم کو جمہوری طریقے سے ہی ہٹایا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لکھاری آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت 'نیو نیوز' کا حصہ ہیں اور عرصہ 12 سال سے بطور صحافی اور محقق مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات سے وابستہ رہے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp