8فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کی کہانی 9فروری کو لکھی جائے تو مورخ کچھ یوں لکھ سکتا ہے کہ اس میں حصہ لینے والے تین بڑے گروہ تھے جب نتائج آنا شروع ہوئے تو تینوں کے تینوں ہکا بکا رہ گئے۔
ایک گروہ کو یقین تھا کہ وہ سب سے زیادہ مقبول ہے لیکن اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ کامیابی کا پروانہ اسے عطا نہیں کیا جائے گا۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میں، میری اس گروہ کے ارکان یا حامی تجزیہ کاروں سے بات ہوئی۔ سب کے سب پہلے زور دار بڑھک مارتے، پھر مایوسی سے منہ لٹکا لیتے تھے کہ انھیں جیتنے نہیں دیا جائے گا۔
دوسرے گروہ کو ادراک تھا کہ مقبولیت میں وہ دوسرے نمبر پر ہے تاہم کامیابی اسی کا مقدربنے گی کیونکہ اس کی بات’اوپر‘ ہوچکی ہے۔ اس گروہ کے حامی تجزیہ کاروں سےمیری متعدد بار بات ہوئی، سب کے سب یقین کی اس دولت سے مالا مال تھے کہ پہلا گروہ جو مرضی کرلے، اسے کچھ خاص نہیں ملنے والا۔
تیسرا گروہ جانتا تھا کہ وہ پہلی پوزیشن حاصل نہیں کرسکتا، چنانچہ اس نے دوسری پوزیشن حاصل کرنے کے لیے زور لگایا۔
دیگر گروہ چونکہ تین میں نہیں آتے، تیرہ میں آتے ہیں، اس لیے ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔
ووٹنگ اس ماحول میں شروع ہوئی کہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند ہوگئی، اور اس وقت بحال ہونا شروع ہوئی، جب انتخابات کے نتائج آگے پیچھے کے کھیل میں کافی حد تک واضح ہونا شروع ہوچکے تھے۔
گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجا سے سروس بحال کرنے کی بات کی گئی تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ ان کا استدلال تھا کہ اگر موبائل اور انٹرنیٹ سروس بحال کردی جائے، تخریب کاروں کو باہم رابطے میں سہولت مل جائے، اور دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو ذمہ دار کون ہوگا؟
ظاہر ہے کہ ان کے اس سوالیہ جواب کا جواب دینے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ البتہ جناب چیف الیکشن کمشنر کی اس دلیل سے اندازہ ہوا کہ پاکستان میں امن و امان کی حالت اس قدر مخدوش ہے کہ کبھی ایسی نہ تھی۔
گزشتہ چالیس برسوں سے میں نے عام انتخابات ہوتے دیکھے ہیں، کبھی موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند نہ ہوئی۔ جب موبائل اور انٹرنیٹ نہیں ہوا کرتے تھے، تب بھی ایسی پابندیاں عائد نہیں کی جاتی تھیں کہ یوم انتخاب پر سیاسی کارکنوں اور ووٹروں کا جوش و خروش باقی نہ رہے۔
2002 کے عام انتخابات ہوں یا 2008 کے، موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر رہی، حالانکہ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ اور اس اتحاد کی قیمت خود کش دھماکوں کی صورت میں پاکستانی قوم چکا رہی تھی۔
بہرحال آٹھ فروری کے عام انتخابات کا سب سے خاص پہلو ووٹروں میں جوش و خروش کا فقدان تھا۔ اس کا سبب کیا تھا؟ اس سوال کا کچھ جواب سطور بالا میں موجود ہے اور کچھ کا اندازہ پڑھنے والوں کو بھی ہوگا، آخر وہ بھی تو ووٹر تھے۔
باقی ان انتخابات میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ جیت کے لیے وہی روایتی حربے۔ جھنگ میں دو امیدواروں کے حامی بیلٹ باکسز اٹھا کر بھاگ گئے۔ اگر الیکشن کمیشن اس واقعے کو خاموشی سے برداشت کرگیا، تو اس کی ساکھ پر زیادہ بڑا دھبہ ثابت ہوگا۔ کراچی میں نقاب پوش مردوں کو خواتین کے پولنگ اسٹیشنز میں گھس کر دھاندلی کرتے ہوئے کے ویڈیو کلپس بھی وائرل رہے۔ اسی طرح بیلٹ باکسز کی سیلیں توڑے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں۔
کراچی سمیت ملک کے بعض شہروں میں، متعدد پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ کا عمل ہی بہت دیر سے شروع ہوا۔ پولنگ کا عملہ دیر سے پہنچا۔ اطلاعات ہیں کہ کراچی کے بعض حلقوں میں پولنگ ہو نہیں سکی۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے سہ پہر تین بج کر چوالیس منٹ پر ٹویئٹر پر پوسٹ کی کہ ان کے حلقے میں ابھی تک پولنگ شروع نہیں ہوسکی۔
اگرچہ دھاندلی کی یہ مثالیں سابقہ عام انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملتی رہی ہیں۔ تاہم اب جب کہ سابقہ حرکتیں نہ کرنے کے عہد کیے جا رہے تھے تو پھر دھاندلی کرنا مشکل بنا دینا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے اس بار بھی دھاندلی کرنا پہلے کی طرح آسان ہی رہا۔
چلیں! حسن ظن سے کام لیتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجا آٹھ فروری کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے لیے زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کریں گے۔ ہر امیدوار کی شکایت کا پوری ذمہ داری سے ازالہ کریں گے۔
اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی کرنے کا سوچنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے امیدواروں کی شکایت پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی تو حالیہ عام انتخابات بھی متنازعہ رہیں گے۔
اس کے نتیجے میں ایسے تنازعات پاکستان کی جان کے لاگو ہوں گے جو انڈے بچے دیتے رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان حالات میں ایسے گند میں لتھڑے رہنے کا متحمل ہوسکتا ہے جب خطے میں ترقی کے متعدد بڑے منصوبے متشکل ہونے جارہے ہیں؟ اور جب پاکستانی عوام بدترین معاشی بحران کا شکار ہوکر درد سے بے حال ہیں۔
جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں، اس وقت تک موصول ہونے والے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق جو تصویر بن رہی تھی، وہ ان تینوں گروہوں کے لیے خوبصورت نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف کی خواہش تھی، انہیں ایسی اکثریت ملے کہ مخلوط حکومت کے جھنجھٹ میں نہ پڑنا پڑے۔ تاہم لگتا ہے کہ ان کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ اگرمسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری تو اسے بہت سوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا میاں محمد نواز شریف ایسی حکومت کی سربراہی کرنا پسند کریں گے؟
دوسری طرف تحریک انصاف اپنی حکمت عملی میں اب تک کامیاب رہی ہے۔ اس کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بڑی تعداد میں جیت رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ وہ منتخب ہوکر عمران خان ہی سے وفادار رہیں گے یا کسی دوسرے، تیسرے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے۔
رہی بات تیسرے گروہ یعنی پاکستان پیپلزپارٹی کی، وہ صرف اس صورت میں دوسری بڑی پارٹی بن سکتی ہے اگر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اِدھراُدھر ہوتے ہیں۔ جناب عمران خان کی سیاسی زندگی کا فیصلہ بھی ان آزاد امیدواروں کے کردار پر منحصر ہے۔