خیبر پختونخوا کا حلقہ جہاں خواتین ووٹرز ٹرن آؤٹ خاتون امیدوار کی جیت کا سبب بن گیا

جمعہ 9 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ روز ملک کے 12 ویں عام انتخابات میں پولنگ کا عمل بحیثیت مجموعی پرامن طورپر مکمل ہوگیا اور گنتی کے بعد نتائج مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اس عام انتخابات میں خواتین بھی بڑی تعداد میں حق رائے دہی کے لئے ملک نکلی  ہیں۔

ویسے تو الیکشن کمیشن نے ابھی تک حتمی نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے اور مجموعی طور پر ووٹرز ٹرن آوٹ کے حوالے سے بھی صورتحال واضح نہیں ہے، تاہم الیکشن کمیشن کی جانب جاری فارم 47 کے مطابق خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ خواتین ووٹر نے صوبے کے سب سے دورافتادہ پہاڑی ضلع اپر چترال کے پی ون اپر چترال میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے، جہاں مجموعی طور پر ووٹرز ٹرن آؤٹ 50.48 فیصد رہا ہے۔

الیکشن دستاویز کے مطابق حلقے میں مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 130189 ہے، جس میں 65722 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے، ذرائع کے مطابق 65722 میں سے 35377 خواتین ووٹرز ہیں جو سخت سردی اور برف کے باوجود بھی گھروں سے ووٹ کاسٹ کرنے نکلیں۔

سردی اور برف میں خواتین ووٹرز کی قطاریں

اپر چترال خیبر پختونخوا کا آخری ضلع ہے، جو واخان کولی دوڑ سے ملحقہ ہے، علاقے کے بیشتر علاقوں میں بھاری برف پڑی ہے اور سردی بھی شدید ہے۔ ڈپٹی کمشنر اپر چترال عرفان الدین کے مطابق بروغل کے علاقے میں چار فٹ تک برف باوجود انتظامیہ نے بند سڑکوں کو کھول کر بروقت پولنگ کا عمل یقینی بنایا۔

عرفان الدین کے مطابق حکومت نے موثر انتظامات کیے تھے جس کی وجہ سے سخت سردی میں نہ صرف ووٹرز ٹرن آؤٹ سب سے زیادہ رہا بلکہ پولنگ کا عمل پرامن طور پر اختتام پذیر ہوا۔

اپر چترال کے رہائشی احمد علی نے وی نیوز کو بتایا کہ اپر چترال میں خواتین ووٹرز کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث ہر پولنگ اسٹیشن پر خواتین کی لمبی قطاریں لگ گئی تھیں دوسری جانب اس مرتبہ آزاد خاتون امیدوار نے بھی گھر گھر انتخابی مہم کرکے خواتین ووٹرز کو ووٹنگ کے لیے نہ صرف مائل کیا بلکہ کامیابی بھی حاصل کرلی۔

خواتین ٹرن آؤٹ زیادہ، خاتون امیدوار کی جیت

اپر چترال میں نہ صرف خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ زیادہ رہا بلکہ حلقے کی تاریخ میں پہلی بار خاتون امیدوار کامیاب بھی ہو گئی ہیں، غیر حتمی نتائج کے مطابق پی کے ون اپر چترال سے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ خاتون امیدوار ثریا بی بی کامیاب ہوئی ہیں۔

ثریا بی بی نے 18914 ووٹ حاصل کیے جبکہ جے یو آئی کے امیدوار دوسرے اور پی پی پی کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے ہیں، سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس صوبائی حلقہ سے خواتین ووٹرز نے ہی خاتون امیدوار کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

غیر حتمی نتائج کے مطابق پی کے ون اپر چترال سے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ خاتون امیدوار ثریا بی بی کامیاب ہوئی ہیں۔ (فائل فوٹو)

اپر چترال کے رہائشی گل ناز بی بی نے وی نیوز کو بتایا کہ سردیوں میں ان کے علاقے کی خواتین گھروں تک محدود رہتی ہیں۔’اسکولوں کی چھٹیاں ہیں جبکہ سردی کے باعث زیادہ کام کاج بھی نہیں ہوتا اور خواتین فارغ رہتی ہیں، جو زیادہ ٹرن آؤٹ کی بڑی وجہ ہے۔‘

گل ناز نے بتایا کہ ان کے گھر سے ان کی عمر رسیدہ ساس سمیت 4 خواتین ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ ’سردی زیادہ تھی اور میری ساس بیمار بھی لیکن پھر بھی ہم سب نے ووٹ کاسٹ کیا کیونکہ یہ قومی فریضہ ہے۔‘

گل ناز سمجھتی ہیں کہ ان کے علاقے میں مجموعی طور پر ووٹرز ٹرن آؤٹ شاید مزید زیادہ ہوتا اگر انتخاباتموسم سرما کی تعطیلات کے بعد منعقد ہوئے ہوتے۔ ’سردی میں اکثر لوگ بال بچوں سمیت پشاور یا اسلام آباد چھٹیاں گزارنے چلے جاتے ہیں، اور اس بار بھی یہی صورت حال ہے، چترال میں سردی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔‘

اپر چترال میں خواتین تعلیم یافتہ ہیں

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن شبینہ ایاز سمجھتی ہیں کہ اپر چترال میں خواتین کے حوالے سے الیکشن کی صورت حال صوبے کے باقی اضلاع سے مختلف ہے، اپر چترال میں شرخ خواندگی سب سے زیادہ ہے، ہر دوسری خاتون یونیورسٹی سے پڑھی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ووٹ کی طاقت سے واقف اور اہمیت کو سمجھتی ہیں۔

’دوسری اہم بات وہاں اکثریتی آبادی اسماعیلیوں کی ہے، جو ترقی پسند لوگ ہیں اور خواتین کو آزادی ہے، اپر چترال سے خواتین کا مردوں کے مقابلے میں گھروں سے نکلنا خوش آئند ہے اور باقی اضلاع میں ایسا ہی ہونا چاہیے، اس میں امیدواروں نے بھی کردار ادا کیا ہو گا۔‘

شبینہ ایاز نے بتایا کہ صوبے کے دیگر اضلاع میں خواتین نکلی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں بہت کم۔ ‘پہلے انتخابات میں خواتین بہت کم نکلتی تھیں شانگلہ دیر میں دوبارہ انتخابات ہوئے، جس کے بعد اب امیدوار اس ضمن میں خود کردار ادا کرتے ہیں۔‘

شبینہ ایاز کے مطابق خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں میں یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں لیکن قدامت پسند علاقوں میں خواتین کو نکلنے نہیں دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حق رائے دہی میں محروم ہو جاتی ہیں۔

پشاور سمیت دیگر اضلاع میں خواتین ٹرن آؤٹ

پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی خواتین ووٹ کے لیے گھروں سے نکلیں، پشاور کے شہری علاقوں میں خواتین پولنگ اسٹیشنز پر رش زیادہ دیکھنے میں آیا۔ گلبہار، صدر، اندرون شہر، حیات آباد ، یونیورسٹی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں خواتین ووٹرز نے بڑی تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

سماجی کارکن شبینہ ایاز کا کہنا ہے کہ اس بار الیکشن میں روایتی گہما گہمی کا فقدان تھا، بیشتر امیدواروں نے بھی انتخابی مہم نہیں چلائی، اس کے باوجود بھی خواتین ووٹرز گھروں سے نکلیں، جو خوش آئند ہے۔

’پشاور، چترال اور دیگر شہری علاقوں میں خواتین کو کسی سماجی مزاحمت کا سامنا نہیں لیکن دیر، شانگلہ، کوہستان اور دیگر اضلاع میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے ماضی میں روکا گیا ہے جبکہ شانگلہ اور دیر میں انتخابات دوبارہ منعقد بھی ہوئے تھے۔‘

اس بار الیکشن میں خواتین پولنگ اسٹیشنز پر رش کے باوجود مجموعی طور پر ٹرن آؤٹ مردوں سے کم رہا ہے، پشاور کے حلقہ پی کے 82 جہاں خواتین ووٹرز زیادہ نکلی تھیں ٹرن آوٹ مردوں کے مقابلے میں 50 فیصد سے بھی کم رہا، اس حلقے میں 62376 ووٹ کاسٹ ہوئے جس میں خواتین ووٹوں کی تعداد 19393 رہی۔

حیات آباد اور دیگر شہری علاقوں پر مشتمل پشاور کے ہی صوبائی حلقہ پی کے 79 میں بھی خواتین ووٹرز ٹرن آؤٹ مردوں کے مقابلے میں 50 فیصد سے بھی کم رہا، اس حلقے میں مجموعی طور پر 41376 ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 13326 رہی۔

دوسری جانب این اے 13 بٹگرام میں مجموعی طور پر کاسٹ کیے گئے 93652 ووٹوں میں 17604 خواتین ووٹ بھی شامل تھے جبکہ دیگر حلقوں میں بھی لگ بھگ یہی صورت حال ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp