اختلاف ہے دشمنی نہیں

پیر 12 فروری 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

باہمی طور پر اختلاف ہونے کا مطلب دشمنی نہیں۔ رائے کا مختلف ہونا زندگی کی علامت ہے۔ مگر افسوس ہم میں سے اکثر لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر ایسا نہیں سمجھتے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ ہر کوئی ہماری ہاں میں ہاں ملائے۔ ووٹ بھی رائے کا اظہار ہی تو ہے۔اگر ہم دوسرے کی رائے یا ووٹ کا احترام نہیں کرتے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اُسے بھی ویسا ہی حق ہے۔ مگر ایسی صورتِ حال سے انارکی کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ کم ہی نکلتا ہے۔

8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ فی الحال ان انتخابات کے نتائج پر انفرادی طور پر بحث مباحثہ اور ملکی سطح پر جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ تقریباً مہینے تک سیاسی گرد بیٹھے گی تو ملکی منظر نامہ واضح ہوگا۔

کسی نجی محفل میں آپ جو مرضی کہیں مگر جب آپ میڈیا پر کسی شکل میں کوئی رائے دیتے ہیں یا تبصرہ کرتے ہیں تو آپ عجیب صورتِ حال کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ متوازن بات کرتے ہیں تو آپ کو ہومیو پیتھک کہہ کر آپ کی رائے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ کسی کی تعریف یا کسی پر تنقید کرتے ہیں تو تب بھی پھنستے ہیں۔ بہرحال آپ کو دلائل کے ساتھ ایمان داری سے اپنی دیانت دارانہ رائے دینی چاہیے اور فریق بنے بغیر تبصرہ کرنا چاہیے اس بات کی پراوہ کیے بغیر کہ کوئی کیا کہے گا۔ کچھ سر پھرے حالات و واقعات کی پراوہ کیے بغیر اپنے من مرضی سے اپنا جہان آپ آباد کرتے ہیں اور جو صحیح سمجھتے ہیں وہی بات کرتے ہیں۔

عزیز دوست محمد حسن معراج مستقلاً انگلستان میں آباد ہیں۔ مگر وہ سال میں درجن بھر کے قریب پاکستان کے چکر لگا لیتے ہیں۔ بالکسر کے قریب انھوں نے ایک نہایت عمدہ طریقے سے فارم ہاؤس بنا رکھا ہے۔ یہ فارم ہاؤس ویسا نہیں جیسا شوخے لوگ بناتے ہیں بلکہ یہ واقعی ایسا فارم ہاؤس ہے جہاں سبزیاں، پھل فروٹ، درخت، پرندے، گھریلو جانور، پانی کا قدرتی ذخیرہ سب کچھ فطرت کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ جب وہ فیملی سمیت آتے ہیں تو جب تک پاکستان میں رہتے ہیں سارے گھر کے افراد ادھر ہی ڈیرہ جماتے ہیں۔

حسن معراج وہی ہیں جنھوں نے ‘ریل کی سیٹی’ جیسی شان دار نثر کی کتاب لکھ رکھی ہے۔ گزشتہ روز دوستوں کو خاندانوں سمیت انہوں نے اپنے فارم پر مدعو کر رکھا تھا۔ اسلام آباد سے ڈاکٹر ناظر محمود ،حاشر ابنِ ارشاد، عاصم بخشی، وسی بابا، ظفر صاحب تھے جب کہ لاہور سے تنویر جہاں، وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ آئے ہوئے تھے۔ قیام و طعام تو اپنی جگہ مگر خاص بات وہاں ہونے والی گپ شپ اور ہزاروں برس کے قدرتی عمل کے بعد بننے والے مٹی کے ٹیلوں کی اشکال تھیں جن کو دیکھ کر بندہ قدرت کی صناعی پر اش اش کر اُٹھتا ہے۔

سیکھنے کو تو کسی چھوٹے بچے سے بھی سیکھا جا سکتا ہے مگر تنویر جہاں اور وجاہت مسعود ایسی جوڑی ہے جس سے ہر بار کچھ نیا سیکھا جا سکتا ہے۔ کسی نے بات کی کہ جگنو محسن نے سلمان اکرم راجہ سے اچھا سوال کیا تھا کہ آپ 3 بیٹیوں کے باپ ہیں؟ آپ کیسے عمران خان جیسے بندے کے پیچھے لگ گئے ہیں جو کہتا تھا کہ خواتین بھی اپنے لباس سے لوگوں کو مشتعل کرتی ہیں۔

تنویر جہاں صاحبہ نے کہا کہ عمران خان اور ان کے معتقدین سے اختلاف اپنی جگہ مگر دیکھیں کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ سلمان اکرم راجہ یا کچھ وکلاء اعظم نزیر تارڑ کو مثال بنائے ہوئے ہیں کہ جیسے وہ عاصمہ جہانگیر گروپ کا سرکردہ ہونے کی وجہ سے شریف خاندان کے قریب ہوئے اور پھر آخر کا ر سینیٹر بنے اور پھر وزیرِ قانون بن گئے۔ مگر بات یہ ہے کہ سلمان اکرم بظاہر عمران خان کی ڈوبتی ہوئی کشتی میں سوار ہوئے اور مشکل حالات کا سامنا کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔

اعظم نزیر تارڑ کا ذکر آیا تو میں بتاتا چلوں کہ سیاسی وابستگی یا ذاتی پسند نا پسند اپنی جگہ، کچھ لوگ ان سے بالا تر، نہایت وضع دار اور مہذب ہوتے ہیں۔ سب سیاسی پارٹیوں میں کچھ سیاست دان ہوتے ہیں جن کی لوگ پارٹیوں سے بالا تر ہو کے عزت کرتے ہیں جیسے پیپلز پارٹی کے قمر زماں کائرہ، فرحت اللہ بابر، عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار یا بلور برادران، پی ٹی آئی کے شبلی فراز اور ن لیگ کے اعظم نزیر تارڑ ہیں۔

اعظم کا کوئی تُکا نہیں لگا بلکہ ان کی کامیابی کے پیچھے کئی دہائیوں کی محنت شامل ہے۔ وکلاء تحریک کے دوران وہ لاہور ہائی کورٹ بار کے سیکرٹری جبکہ احسن بھون صدر تھے۔ اعظم کے والد سمیت خاندان کے کئی افراد قومی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کے والد صاحب بھی ایم این اے رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو، انگلش اور پنجابی کے ڈیبیٹر رہے۔ لنکنز ان سے انھوں نے بار ایٹ لاء کیا۔ وہ اپنی قابلیت کی بنا پر مسلم لیگ کی ضرورت بنے۔ خاندان کے سارے افراد مزاجاً بھلے مانس اور نرم خو ہیں۔ اعظم نہ صرف خود جی سی لاہور کے نمایا ں طالب علم رہے بلکہ ان کے والد اور دادا بھی راوین تھے۔ اعظم نزیر تارڑ کا میل جول میں رویہ ویسا ہی پایا جیسا دو دہایاں قبل تھا۔ وہ اپنے تعلق کو نبھانا جانتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکڑ معظم تارڑ پاکستان کے ممتاز پلاسٹک سرجن ہیں جنہوں نے سینکڑوں پلاسٹک سرجنز کو پاکستان میں تربیت دی ہے۔ لاہور جناح ہسپتال میں سٹیٹ آف دی آرٹ برن سنٹر کے قیام میں ان کا مرکزی کردار تھا۔ خدا ڈاکٹر معظم صاحب کو عمرِ خضر عطا کرے ویسے بعد از مرگ ڈاکٹر صاحب نے اپنی جلد عطیہ کرنے کی وصیت کر رکھی ہے۔

ڈاکٹر معظم اور اعظم تارڑ دونوں بھائی اپنے اپنے شعبے میں انتہائی قابل اور نمایاں ہیں۔ اخلاق، خدمتِ خلق، اور رواداری میں بھی وہ پرلے درجے کے وضع دار ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو آپ کے مخالف بھی ہوں تو آپ ان کی عزت کرتے ہیں۔

پاکستانی سیاست اور معاشرے کو ایسے بہت سے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ ہمارا کسی موضوع پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دشمن ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp