بونیر: انسانی زندگی اور قدرتی ماحول سے کھیلنے والی ماربل فیکٹریاں

جمعرات 15 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبرپختونخواہ کے علاقے بونیر میں ماربل فیکٹریوں کے فضلے کے باعث وہاں بہنے والے ایک بڑے نالے کا پانی آلودہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی، آبی حیات اور زراعت متاثر ہورہی ہے۔۔ یہ نالہ دوسہرہ کی چوٹیوں سے نکلتا ہے اور پھر دریائے سندھ کے ساتھ مل جاتا ہے۔

‏‎سینئر صحافی سید رشید کا کہنا ہے کہ یہ پانی پہلے صاف ہوا کرتا تھا اور اس میں مچھلیاں صاف نظر آتی تھیں لیکن اب یہ مکمل آلودہ ہوچکا ہے۔ سید رشید 27 سال سے بونیر میں صحافت کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے جب یہاں سنگ مرمر کے کارخانے نہیں تھے تب یہ پانی بہت صاف تھا اور جب ہم اسکول جاتے تھے تو اس پانی کو دیکھتے تھے اور اس میں تیرتی مچھلیاں صاف دکھائی دیتی تھیں۔

’سیاح ان مچھلیوں کو پھل ڈالا کرتے تھے‘

ان کا کہنا ہے کہ سنہ 1980 میں اس علاقے میں ماربل فیکٹریاں لگنی شروع ہوئیں جس کی وجہ سے یہ پانی آہستہ آہستہ آلودہ ہوتا چلا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت بونیر میں ماربل کی 500 رجسٹرڈ فیکٹریاں ہیں اور درجنوں کانیں بھی ہیں جو صوبے کا 95 فیصد اور ملک کا 70 فیصد ماربل پیدا کرتی ہیں۔

سید رشید کا کہنا ہے کہ ان فیکٹریوں کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‎نقصان اس کا یہ ہوا کہ  اب اس نالے میں مچھلیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں اور اوراس کے علاوہ زمین زراعت کے قابل نہیں رہی ہے۔

بونیر کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس ضلعے میں گندم، مکئی، پھل سبزیوں کے علاوہ تمباکو کی پیداوار بھی ہوتی ہے۔

‏‎سید رشید نے کہا کہ بونیر کے لوگوں کا 2 چیزوں پر انحصار ہے جن میں ایک دبئی، ملیشیا وغیرہ میں کام کرنے والے مزدوروں کا زرمبادلہ اور دوسرا آمدن کا ذریعہ ‎ماربل کارخانے ہیں جہاں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ٹرک مالکان، پیٹرول پمپس اور دکانداروں کا کاروبار بھی اس سے ہی وابستہ ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ

‏‎مقامی مزدور جان محمد 17 سال سے ٹرکوں پر ماربل لوڈ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ‎ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں آتا اور اگر یہ کام نہ ہوتا تو پھر شاید وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔

جان محمد کا کہنا تھا کہ یہ بہت سخت کام ہے اور پھر لوگ بھی بری طرح پیش آتے ہیں لیکن یہ کام ان کی مجبوری ہے۔

مسئلے کا حل

سید رشید نے کہا کہ اس نالے کو بچانے کے لیے علاقے میں مناسب جگہوں پر ماربل زون قائم کیے جائیں تاکہ یہ کارخانے ایک طرف ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے زمین بھی خریدی گئی ہے مگر اقتدار میں بیٹھے لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔

سنہ 2012 میں انٹرنیشنل جرنل آف ریسنٹ سائینٹیفک ریسرچ میں ’ماربل کی وجہ سے صنعتی فضلے اور زمینی پانی میں آلودگی کا بوجھ‘ کے نام سے ایک رپورٹ چھپی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ضلع بونیر میں صعنتیں زیر زمین اور سطحی پانی کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

’صنعتی فضلہ انسانی جانیں بھی لے رہا ہے‘

صنعتی فضلہ پانی کے ساتھ ملتا ہے جس کی وجہ سے پانی بھی آلودہ ہوتا ہے. رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے نہ صرف انسانی صحت کا معیار متاثر ہوا ہے بلکہ انسان کی موت کا بھی باعث بن رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے مویشی، آبی حیات اور فصلیں بھی متاثر ہورہی ہیں جبکہ آگاہی کی کمی، گندے پانی کی صفائی کی سہولیات کی کمی، مالی مسائل کی کمی اور غیر مؤثر ماحولیاتی قوانین کے باعث صورت حال پیچیدہ ہوئی ہے۔

سید رشید کا کہنا ہے کہ سرکاری عہدیداروں نے صورت حال کو بہتر بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp