پختونخوا کا کیا ہوگا

جمعہ 16 فروری 2024
author image

عمیر خان آباد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے خیبر پختونخوا میں سادہ اکثریت لی تو عمران خان نے صوبے میں حکومت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کیا۔ اپنے گزشتہ پنج سالہ دور میں عمران خان نے پنجاب میں عثمان بزدار اور کے پی میں محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ ان دونوں کو عمران خان 5 سال تک سپورٹ کرتے رہے اور باوجود میڈیا، اپوزیشن اور اپنی پارٹی کی مخالفت کے، انہیں وزارت اعلیٰ سے نہیں ہٹایا۔

عثمان بزدار اور محمود خان ‘یس سر’ مزاج کے بندے تھے۔ دونوں صوبوں میں عمران خان اور دو چار لوگوں کی مرضی چلتی تھی، باقی وزراء بجائے ترقیاتی کاموں پہ توجہ دینے کے اپوزیشن کی اپوزیشن کرتے رہے۔ پنجاب والے ن لیگ اور کے پی والے جمعیت کی مخالفت میں اپنا وقت برباد کرتے رہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی پہلی حکومت یعنی پرویز خٹک کی حکومت بہتر تھی۔ ترقیاتی کام ہوئے، اسکول، ہسپتال، پولیس، محکمہ مال، جنگلات، اور ٹی ایم اے وغیرہ کام کرتے رہے۔ بڑی حد تک میرٹ بھی تھا اور اپوزیشن کی مخالفت کے بجائے صوبائی حکومت ترقیاتی کاموں اور اداروں کی بہتری کر رہی تھی۔

صوبے میں پی ٹی آئی کی دوسری حکومت انتہائی بیکار رہی۔ کرپشن کی نئی مثالیں بنیں، صحت کارڈ، سونامی پروجیکٹ، پناہ گاہوں، اور کورونا ریلیف و کنٹرول وغیرہ میں ٹھیکیداروں، سیاستدانوں اور بیورو کریسی نے اپنی جیبیں خوب گرم کیں۔

مزید یہ کہ محکمے انتہائی کرپٹ ہوئے، سرکاری ملازمین سست اور کام چور بنے، رشوت خوری اور بلیک میلنگ بڑھی، اور افسر شاہی نظام عروج پہ رہا۔ حکومت صرف سوشل میڈیا پہ تھی۔ سوشل میڈیا کے لیے بھی 5 ہزار لوگ تنخواہ پہ رکھے گئے تھے جن کا کام دن رات پی ٹی آئی کی پروموشن کرنا تھا۔

پی ٹی آئی کی سینیئر لیڈرشپ 9 مئی کی نظر ہوئی اور سمجھدار لوگوں نے پارٹی چھوڑ کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ ابھی جو نئے امیدوار کامیاب ہوئے، انہیں اہلیت پہ نہیں بلکہ عمران خان کے بیانیے اور اسٹیبلشمنٹ کی ضد میں ووٹ پڑا ہے۔

گزشتہ الیکشن منشور میں پی ٹی آئی نے ملکی ترقی، 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں وغیرہ کا وعدہ کیا تھا۔ ان میں سے کسی وعدے پر مکمل عمل تو نہیں ہوا لیکن ہلکی پھلکی سوشل میڈیائی مہم جوئی ضرور رہی۔ امسال تو الیکشن ہی کھوکھلے نعروں پہ لڑا گیا۔ ترقی تو ہدف ہی نہیں۔

علی امین گنڈاپور کی گزشتہ تقریریں، رویے اور کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ ‘پختونخوا تباہ دے’۔
آنے والے وقت میں خیبرپختونخوا میں میرٹ نام کی چیز نہیں رہے گی، محکمے مزید تباہ ہوں گے، کرپشن اور رشوت بڑھے گی، صحافیوں کے لیے بولنا مشکل ہو جائے گا، اور عوام رلتی رہے گی۔

کے پی صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ممبران کی تعداد انتہائی کم ہے لہذا اسمبلی میں پی ٹی آئی کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ دوسری جانب مرکز میں چونکہ پی ٹی آئی کو مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ صوبائی کابینہ حکومتی امور سے زیادہ مرکزی سیاست میں سرگرم رہیں گے۔

خیر، یہ تو وقت بتائے گا کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیائی مہم جوئی کرے گی یا ترقیاتی کام؟ صوبائی اور ملکی سطح پر سیاسی دھارے میں آئے گی یا اپنے اور اپنے فالوورز کے لیے نئے مسائل کھڑے کرے گی؟ مفاہمت سیکھے گی یا مزاحمت کے نام پر مخالفت کی روش جاری رکھے گی؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp