مولانا فضل الرحمٰن کے الزامات، جنرل باجوہ اور فیض نے کیا مؤقف دیا؟

جمعہ 16 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حالیہ عام انتخابات کے حیران کن نتائج کے بعد جہاں بیشتر سیاسی جماعتیں حکومت سازی کی تگ ودو میں مصروف ہیں وہیں، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ضمن میں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔

سمانیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں مولانافضل الرحمٰن  نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور سابق سربراہ آئی ایس آئی میجر جنرل فیض حمید نے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی ہدایت کی تھی، ان کے اس ’انکشافاتی بیان‘ نے بیشتر سیاسی جماعتوں کے جمہوری رویوں کی بظاہر قلعی کھول دی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بات ایسے وقت کہی ہے جب وہ اپنے سابق سیاسی حریف عمران خان کی جماعت تحریک انصاف سے بظاہر قربت بڑھانے کے عمل کا حصہ بھی ہیں، ان کے اس بیان پر تردیدی رد عمل تو متوقع تھا مگر اس کی نوعیت بڑی معنیٰ خیز بن چکی ہے۔

جہاں کچھ لوگ اسے من و عن درست سمجھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو وہیں بعض حضرات نے اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے، اور اس دوڑ میں صحافی بھی پوزیشن لینے سے باز نہیں آئے، سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹ ایکس پر صحافی اور تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے تو لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا تردیدی بیان بھی پوسٹ کر ڈالا۔

ارشاد بھٹی کے مطابق سابق سربراہ آئی ایس آئی کا کہنا ہے کہ مولانا اپنی سیاست چمکانے کیلئےجان بوجھ کر غلط بیانی کر رہے ہیں۔ ’مولانا صاحب بھول رہے ہیں کہ جب تحریکِ عدم اعتماد آئی تو وہ کورکمانڈر پشاور تھے، میں 21 نومبر کو اسلام آباد سے چلا گیاتھا،میں ایسی کسی بات کے لیے جنرل باجوہ کے ساتھ نہیں گیا اور نہ ہی اس معاملے پر مجھے کوئی علم ہے۔‘

دوسری جانب صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے اپنے یوٹیوب چینل پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مولانا فضل الرحمٰن سے 4 ملاقاتوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ہمیشہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے کوشاں رہے۔

جاوید چوہدری کے مطابق انہوں نے جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع سے رابطہ کیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں مولانا سے دریافت کیا ہے کہ وہ صرف ’مقام اور جگہ‘ بتادیں جہاں ان کی جنرل باجوہ اور فیض حمید سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا کہا تھا۔ ’جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ وہ اس پر حلف دینے کو تیار ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔‘

صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے مولانا فضل الرحمٰن کے اس بیان سے بظاہر اتفاق کرتے ہوئے ایکس پر لکھا ہے کہ مزے کی بات ہے کہ (وزیراعظم) عمران خان جنرل فیض کی خاطر پوری فوج سے لڑے، انہیں یقین تھا جنرل فیض ہی ان کی آخری ڈھال تھے۔

’وہی اکیلے عدم اعتماد کا راستہ روک سکتے تھے، ان کی کرسی جنرل فیض بچا سکتے تھے لہذا انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کی سیٹ سے ہٹانے کو تیار نہ تھے۔دوسری طرف وہی جنرل فیض مولانا سے خفیہ ملاقاتیں کر کے انہیں پارلیمنٹ کے اندر سے عمران خان کو ہٹانے کا طریقہ سمجھا رہے تھے۔‘

رؤف کلاسرا کی اس پوسٹ پر تبصروں میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ضمن میں  کے مبینہ متنازع کردارپرایمان لانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کی جانچ پڑتال شروع ہوگئی۔

صحافی شاہد اسلم نے لقمہ دیا کہ جنرل فیض تو اس وقت آئی ایس آئی سے ہٹ چکے تھے اور ندیم انجم چارج سنبھال چکے تھے، جس پر رؤف کلاسرا نے لکھا کہ مولانا نے اگست 2021 کی بات کی ہے جب بقول ان کے جنرل فیض ان سے ملنے آئے تھے، جنرل فیض کو 6 اکتوبر میں ہٹایا گیا تھا۔

تبصروں کی اسی لڑی میں ایک اور صارف اویس احمد نے لکھا کہ شاید آپ کو یاد ہو کہ جنرل فیض اکتوبر 2021 میں کور کمانڈر پشاور تعینات کیے گئے تھے۔ ’جس وقت مارچ 2022 میں عدم اعتماد پیش ہوئی اور پھر اتحادیوں نے ساتھ چھوڑنا شروع کیا اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم تھے۔‘

اس موقع پر اویس احمد سے ایک اور صارف عثمان بشیر نے سوال کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اگست 2021 کی بات کررہا ہے بھائی، اپریل 2022 کی نہیں، جس پر تقریباً جھنجھلاتے ہوئے احمد اویس نے جوابی سوال داغتے ہوئے لکھا کہ اگست 2021 کے چند روز بعد ہی اتحادی چھوڑگئے تھے کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp