پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمٰن نے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور دیگر لوگوں سے متعلق بات کی لیکن تحریک عدم اعتماد سے جنرل فیض حمید کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں ندیم افضل چن، سردار فتح اللہ خان اور سبط الحیدر بخاری کے ہمراہ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جمہوری طریقے سے آئی، پیپلز پارٹی نے کراچی سے لانگ مارچ شروع کیا تھا، اگر مولانا کو تحفظات تھے تو عدم اعتماد میں ساتھ نہ دیتے۔
فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں بہت بڑی سیاسی تبدیلی دیکھنے کو ملی، پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمٰن کو ملا، ماضی میں پی ٹی آئی اور جے یوآئی کی قیادت نے ایک دوسرے پر کیا کیا الزامات نہیں لگائے اور ایک دوسرے کو کن کن القابات سے نہیں پکارا۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کے سربراہ تھے، مولانافضل الرحمٰن نے فرمائشی دھرنا دیا پھر کس کے کہنے پر واپس گئے، وہ پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر عدم اعتماد کا حصہ کیوں بنے، پی ڈی ایم کا سب سے زیادہ فائدہ مولانا صاحب کو ہی ہوا اور جے یو آئی نے وزارتوں کے مزے لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیمرا نے بانی پی ٹی آئی کے نام اور تصویر پر پابندی لگائی ہوئی ہے ورنہ وہ بھی سامنے آتے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پیمرا سے اپیل ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی تقاریر سے پابندی ہٹائیں اور ان کے بیانات چلنے دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن ہارے خیبرپختونخواہ میں اور احتجاج سندھ میں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ 9 مئی کے واقعات ملک دشمنی کے مترادف ہیں، آج 9 مئی میں ملوث افراد وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سمیت دیگر عہدوں کے امیدوار ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی نے ملک اور جمہوریت کی خاطر ن لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ، بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے ، ہمیں امید ہے اتحادی جماعتیں ہمارا ساتھ دیں گی اور جیالا وزیر اعلی بنے گا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی پی رہنما ندیم افضل چن نے کہا کہ مولانا صاحب روتے کسی اور کو ہیں اور نام بھائیوں کا لیتے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ کہا سیاست میں شائستگی رہنی چاہیے، کل تک یہ ایک دوسرے کو القابات سے نواز اور الزامات لگا رہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں، ان انتخابات کو کسی نے صاف شفاف نہیں مانا، ملک میں آج تک صاف شفاف انتخابات نہیں ہوئے، سیاسی جماعتوں کو موجودہ صورتحال میں مل کر بیٹھنا ہو گا، پیپلز پارٹی کی سی ای سی نے فیصلہ کیا کہ ہم کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی ن لیگ کی کمیٹی سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔