فیض آباد دھرنے سے نمٹنے کے لیے حکومتی کوتاہیوں کا ذمے دار میں ہوں، شاہد خاقان عباسی

منگل 16 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ احکامات کی روشنی میں قائم ہونے والے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے 2017 میں دیے گئے دھرنے سے متعلق اپنی رپورٹ مرتب کرلی ہے اور گزشتہ روز اس سلسلے میں ایک بریف بھی جاری کیا تھا۔ کمیشن کی سربراہی ڈاکٹر سید اختر علی شاہ جبکہ ان کے ساتھ سابق آئی جی اسلام آباد طاہر عالم اور سیکریٹری داخلہ خوشحال خان بطور ممبر شامل تھے۔

کمیشن کی فائنڈنگز اور سفارشات کیا ہیں؟

اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ احسن اقبال، ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان اور وزیر قانون زاہد حامد نے دھرنے میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار سے انکار کیا ہے۔

سابق وزیراعظم اور وزراء سمیت کسی نے کوئی ایسی شہادت پیش نہیں کی جس کے تحت فیض آباد دھرنے میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کا اشارہ ملتا ہو اس لیے کمیشن کسی ادارے کو اس دھرنے سے نہیں جوڑ سکتا۔

22 نومبر 2017 کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس نے اس وقت کے ڈی جی (سی)۔ آئی ایس آئی فیض حمید کو مظاہرین سے مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے کے لیے کہا تھا۔ فیض حمید نے وفاقی ڈی جی آئی ایس آئی، چیف آف آرمی سٹاف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ احسن اقبال کی اجازت سے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی تھے۔

سویلین امور میں مسلح افواج کی مداخلت ادارے کے امیج کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ ڈی جی سی کے بجائے یہ کام ڈی جی آئی بی کے سپرد کیا جانا چاہیے تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وزیر قانون زاہد حامد، ڈی جی انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان، ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو، فواد اسد اللہ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب اعظم سلیمان کے بیانات میں قدر مشترک تھی کہ وہ معاملے کو طاقت کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے۔

اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تسلیم کیا کہ فیض آباد دھرنے سے نمٹنے کے لیے ساری حکومتی کوتاہیوں کا ذمے دار میں ہوں، سوائے اس آپریشن کے جس کے احکامات اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دیے تھے۔

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا

فیض آباد دھرنا حکمرانوں، خاص طور پر پنجاب حکومت میں فیصلہ سازی کی جرات کے فقدان کے باعث پیش آیا۔ پنجاب حکومت نے مظاہرین کو اسلام آباد آنے دیا۔ اسلام آباد پولیس اور راولپنڈی پولیس میں عدم تعاون کے باعث 25 نومبر 2017 کو مظاہرین کے خلاف آپریشن کے مطلوبہ نتائج نہ نکل سکے۔

راولپنڈی پولیس مزید مظاہرین کو دھرنے میں شمولیت سے بھی نہ روک سکی جس کے باعث پولیس اور ایف سی کے 277 اہلکار زخمی جبکہ 7 جاں بحق ہو گئے۔ جبکہ ناکام آپریشن کا ردِ عمل ملک بھر میں سرکاری املاک پر حملوں اور مزید ہلاکتوں کی صورت میں نکلا۔

کمیشن کے جاری کردہ بریف میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے کام کرنے کے حوالے سے کوئی قانونی ضابطہ اور طریقہ کار موجود نہیں، یہ قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد پولیس تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنے میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والے ملزمان کے خلاف ازسر نو تحقیقات کا آغاز کرکے مقدمات کو حتمی نتیجے تک پہنچائے۔

وزیراعظم اور وزرا کے اختیارات کی واضح تعریف موجود نہیں اس لیے فیصلہ سازی کے عمل میں تاخیر ہوتی ہے، سپریم کورٹ مصطفیٰ امپیکس کیس کا ازسرنو جائزہ لے۔ پاکستان کے طرز حکومت میں خرابیوں اور حکمرانوں میں بحرانوں کے ساتھ قانونی طریقے سے نمٹنے کے عزم کی عدم موجودگی کے باعث بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔

حکومتی پالیسیوں میں سقم کی بنا پر اس طرح کے احتجاجات منظم ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قانون کے مؤثر اطلاق اور عملداری جو اچھی حکمرانی کے بنیادی اصول ہیں ان کا فقدان نظر آتا ہے۔ ملک کے حکمرانوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔

کمیشن نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت نے ماضی میں سوات، خیبر ایجنسی، وزیرستان میں مسلح جتھوں کے ساتھ امن معاہدے کیے جن کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوئے اور بالآخر حکومت کو بڑے آپریشن کرنا پڑے لیکن حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

مذہب کے نام پر امن و امان میں خرابی پیدا کرنے والی تحریک لبیک یا رسول اللہ کو وہ رعایتیں دی گئیں جو سب کو حاصل نہیں جبکہ قانون کی نظر میں سب لوگ برابر ہوتے ہیں۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ علاقائی امن کے حصول کے لیے مذہب کے نام پر تشدد بند کرنا چاہیے اور متشدد انتہا پسندی کے خلاف زیرو ٹالرینس کا اصول اپنانا چاہیے۔

کمیشن نے امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے عدلیہ کے کردار پر بھی نام لیے بغیر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ امن و امان قائم کرنا صرف انتظامیہ کا اختیار ہے اور اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
پیمرا قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے، اشتعال انگیز مواد نشر کرنے والوں کا لائیسنس کم از کم 6 ماہ کے لیے معطل اور ایک سے 5 کروڑ جرمانے کی سزا دی جانی چاہیے۔

وفاقی دارالحکومت کو صوبے کا درجہ دے کر مکمل انتظامی اور مالی اختیارات دینے چاہیئں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے پولیس اہلکاروں کو ڈیپوٹیشن پر دونوں شہروں میں تعینات کیا جانا چاہیے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ترقیوں، ٹرانسفر اور پوسٹنگ میں ہونے والی زیادتیوں کی وجہ سے کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام میں کمزوری ہے۔

دھرنے کا پس منظر

الیکشن ایکٹ 2017 میں ختم نبوت کے حوالے سے سقم کے باعث احتجاجات منظم ہوئے گو کہ اس سقم کو دور کر دیا گیا لیکن 18 اکتوبر 2107 کو احتجاج اور دھرنے کا اعلان ہوا، پنجاب حکومت نے احتجاج کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسے اسلام آباد آنے دیا۔

احتجاجی مارچ 6 نومبر 2017 کو شروع ہوا اور پھر 8 نومبر 2017 کو اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر پہنچا۔ اسلام آباد پولیس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے 25 نومبر 2017 کو آپریشن کا آغاز کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp