مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بیان ’سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی‘ حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل باجوہ تو کہہ رہے تھے کہ عدم اعتماد نہ لائیں۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمان اور تحریک انصاف کے درمیان اگر سمجھوتہ ہوگیا تو مولانا فضل الرحمان کی عمران خان حوالے سے جو پچھلے 10 سال سے موقف تھا، مخاصمت تھی، مخالفت تھی یا یوں کہہ لیں کہ وہ ذاتی دشمنی میں تبدیل ہوگئی تھی،غلط ثابت ہوجائے گی۔
ملک احمد خان نے کہا کہ 9 مئی کے بعد مولانا فضل الرحمان کے بیٹے نے کابینہ میٹنگ میں کہا کہ تحریک انصاف کے لوگوں سے بات چیت کرنا کفر کے مترادف ہے، وہ سمجھتے تھے یہ سیاستدان نہیں ہیں، پیپلزپارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ اور سید نوید کمر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے، میں مولانا کے تحریک انصاف کے بارے میں موقف سے اس وقت تھوڑا خوفزدہ بھی ہوا تھا کیوں کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں۔
’میں عمران خان کے اس وطیرے کے سخت مخالف تھا، جنہوں نے سیاست کے اندر بہت زیادہ نفرت بو دی ہے، یہ نفرت کی فصل یہ بو رہے ہیں، کاٹیں گی ہماری آنے والی نسلیں، یہ نفرت اتنی بڑھ جائے گی کہ متحرک سیاستدانوں کا باہر سڑک پر نکلنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔‘
مزید پڑھیں
لیگی رہنما نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے بیٹے کہتے تھے کہ وہ پی ٹی آئی والوں سے بات نہیں کریں گے، کہتے تھے پی ٹی آئی والے ملک کے دشمن ہیں، انہوں نے ملک کے خلاف سازش کی، وہ میڈیا پرسنز کے بارے میں بھی گن کر بتاتے تھے کہ فلاں فلاں میڈیا پرسنز ان کے پے رول پر ہیں، وہ کچھ افسران اور ٹی وی مالکان کا نام بھی بتاتے تھے، کچھ اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کا نام لیتے تھے جو پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے ذمہ دار تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی رہنما عمران خان کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ بڑا کمزور عقیدے کا مالک ہے،جو قرآنی آیات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتا ہے، لیکن تحریک عدم اعتماد کے بارے میں اب مولانا فضل الرحمان کے بیان پر بڑی حیرانی ہوئی ہے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ سینیٹ کے الیکشن میں حفیظ شیخ کو شکست ہوئی تھی، جس کے بعد ہماری اس بات کو تقویت ملی کہ عمران خان نے اعتماد کا ووٹ ہیرا دھوکے سے لیا ہے، اسمبلی کے فلور کی توہین کی ہے، جس انداز میں اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے تھا نہیں لیا، تو ہم نے کہا کہ اس حکومت کو اب مزید رہنے کا حق نہیں ہے، اس کے بعد ہی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان اور جے یو آئی سے بات ہوئی۔
ملک احمد خان نے کہا کہ ان دنوں پی ٹی آئی کے قاسم نون، راجا ریاض سمیت 20 کے قریب لوگوں نے پارلیمنٹ لاجر میں ہمیں کہا کہ ہمارے لیے اب عمران خان کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے، پی ٹی آئی والوں نے کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی کا ٹکٹ لے کر ہم عوام کے سامنے خوار ہوں گے، ان دنوں ای وی ایم مشین کی بات بھی ہورہی تھی، الیکٹورل لاز کو تبدیل کرنے کی بات چل رہی تھی۔
’میں نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو کہا کہ عمران خان کے پاس اکثریت نہیں ہے، تو ہمیں یہ معاملا دیکھنا چاہیے، انہی دنوں 16 ضمنی الیکشن تحریک انصاف ہار گئی تھی، اس وقت جے یو آئی نے خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابیاں حاصل کی تھی، مولانا فضل الرحمان کا اس وقت موقف تھا کہ تحریک انصاف اپنی ساکھ کھوچکی ہے، ملک کا دیوالیہ ہوگیا ہے، تحریک انصاف کی حمایتی جماعتیں بھی ان سے خائف تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جب کہا کہ فوج نیوٹرل رہے گی اور کسی کی حمایت نہیں کرے گی، پھر پی ٹی آئی حکومت کے سارے وزیر صبح سے لے کر شام تک کہتے رہے کہ ہم ایک صفحہ پر ہیں، اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی مدد کریں۔
’کیا کوئی یہ بتائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ آصف علی زرداری، شہباز شریف، نواز شریف، خالد مگسی کو ڈکٹیٹ کر سکتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں، وہ جو ان کو جیلوں میں ڈال کے بیٹھے ہیں، وہ جنہوں نے حمزہ شہباز کو اڑھائی سال حبس بے جا میں رکھا، جنہوں نے باپ کے سامنے بیٹی کو قید کیا، کیا وہ ہمیں کہیں گے آپ تحریک عدم اعتماد لائیں۔‘
ملک احمد خان نے کہا کہ انسان اپنی مرضی سے باتوں کو توڑ موڑ کر بات کرسکتا ہے لیکن واقعات کبھی جھوٹ نہیں بولتے، کنٹونمنٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف کو بری طرح شکست ہوئی، ان حالات میں ہمیں یہ لگا کہ اگر حکومت کو مزید وقت دیا گیا، جس طرح یہ آئی ایم ایف سے معاہدے کررہے تھے، تو ایسا لگتا تھا کہ خدانخواستہ یہ لوگ پاکستان کو ڈیفالٹ کروا دیں گے۔
’پھر مولانا صاحب کے بیانات کہ تحریک انصاف ایک سازش ہے، اس سے ہمیں اور تقویت ملی، پھر پنجاب اور کے پی کے وزرائے خزانہ کی گفتگو سامنے آئی جس میں وہ بات چیت کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کو نہ ہونے دو، ملک کو ڈیفالٹ ہونے دو، صوبوں کو وفاق کے خلاف کھڑا کرنے کی باتیں ہورہی تھی، ان باتوں سے ثابت ہوا کہ مولانا فضل الرحمان نے جو تحریک انصاف کے بارے میں کہا درست کہا تھا، ان کی باتیں سنہری حروف سے لکھنی چاہییں۔‘
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی، سپریم کورٹ نے عمران خان کو رستہ دیا نہیں تو ان کو آئین توڑنے پر سزا ملتی، اب مولانا فضل الرحمان کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لاؤ، لیکن ہمارے سامنے جو واقعہ ہوا اس میں جنرل باجوہ تو کہہ رہے تھے کہ عدم اعتماد نہ لائیں، جنرل باجوہ تو عمران خان کے نمائندے بنے ہوئے تھے، جنرل فیض تو اس وقت سب کی ہٹ لسٹ میں تھے۔
’ایک میٹنگ جس میں سب سیاسی جماعتوں کے سربراہان تھے، کہا گیا کہ وزیراعظم استعفی دیں گے اور نئے الیکشن کی طرف جائیں گے، مولانا فضل الرحمان نے اس وقت کہا کہ آپ ہمیں اب یہ کیوں کہہ رہے ہیں، ہم نے عدم اعتماد کی تیاری کرلی ہے، میں سمجھا کہ مولانا فضل الرحمان بڑے ذبردست آدمی ہیں جو ایک آرمی چیف کے سامنے اس طرح بات کررہے ہیں، ظاہر ہے آرمی چیف کو اس وقت وزیراعظم عمران خان نے بھیجا ہوگا کہ آپ جاکر اپوزیشن جماعتوں سے بات کرلیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے پاس کوئی بندہ ہے جو یہ بتا دے کہ جنرل فیض ان سے کب ملے؟ اپوزیشن رہنماؤں نے کسی کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد لائی، بالکل غلط ہے، تحریک عدم اعتماد میں مولانا فضل الرحمان پوری طرح شامل تھے، آج پتا نہیں کیوں ان کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ تحریک عدم اعتماد جنرل باجوہ اور فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی۔
’مولانا فضل الرحمان نے یہ بات بالکل حقائق کے برعکس کی ہے، مولانا فضل الرحمان ثابت کردیں کہ جنرل فیض اور جنرل باجوہ نے لائی تو بات ختم ہوجائے گی۔‘
لیگی رہنما نے کہا کہ عمران خان مولانا فضل الرحمان کے بارے میں جو الفاظ استعمال کرتے رہے، اس پر مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوتا تھا، عمران خان نے ہمارے خلاف بھی بہت کچھ کہا، نواز شریف کے خلاف مقدمات کے بارے میں تمام عدالتوں نے کہا کہ نیب کو یہ مقدمات قائم ہی نہیں کرنے چاہیے تھے، لوگوں کے ذاتی کاروبار کے معاملات کو اٹھا کر کرمنل کیسز بنانے کی کوشش کی گئی۔