چٹھہ نے تمام کچا چٹھا کھول دیا

پیر 19 فروری 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ 1985 کی بات ہے پاکستان میں عام انتخابات ہونے جارہے تھے۔ الیکشن کے حوالے سے اس وقت ٹی وی چینلز تو تھے نہیں اخبارات ہی معلومات کا واحد ذریعہ تھے اور اخباروں میں لکھے گئے کالمز کو لوگ بڑی اہمیت دیتے تھے۔ انہی دنوں کسی نے ایک کالم لکھا اور جنرل ضیاالحق سے مخاطب ہوکر کہاکہ جنرل صاحب عام انتخابات بھی ویسے ہی ہوں گے اور ان کے نتائج کیا اسی طرح ہوں گے جیسے 1983 کے بلدیاتی انتخابات میں راولپنڈی سے شیخ غلام حسین کو جتوایا گیا تھا؟ اگر ایسے ہی الیکشن کروانے ہیں تو بہتر ہے یہی حکومت جاری رکھیں۔ ان دنوں بھی فوج کے اوپر بدترین دھاندلی کے الزامات لگے تھے۔

کالم میں لکھی اس بات نے جنرل ضیاالحق کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ انتخابات کی شفافیت کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک 4 رکنی کمیٹی بنائی۔ جسے ظہور عادل کمیٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کمیٹی میں کیبنٹ سیکرٹری ظہور عادل، ایڈمنسٹریٹر اسلام آباد عمر آفریدی (جسٹس یحییٰ آفریدی کے والد)، ایڈمنسٹریٹر راولپنڈی پرویز مسعود اور خواجہ ظہیر شامل تھے۔ جنرل ضیا نے اس کمیٹی کو احکامات جاری کیے کہ آپ کوئی فریم ورک بنائیں کہ الیکشن کو کیسے شفاف بنایا جائے تاکہ انتخابات میں فوج پر دھاندلی کے الزامات جو لگتے ہیں ان کا تدارک کیا جاسکے۔

ظہور عادل کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کیں کہ الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے انتخابات کا انعقاد فوج یا عدلیہ کی زیرنگرانی کرانے کے بجائے انتظامیہ کے ذریعے منعقد کروائے جائیں۔ انہی سفارشات کی روشنی میں 1985 اور 1988 کے انتخابات کروائے گئے اور پھر پہلی دفعہ آئین میں ترمیم کرکے ایک نگراں حکومت کے ذریعے الیکشن منعقد کروانے کی پالیسی متعارف کروائی گئی۔

ہفتے کے روز کمشنر راولپنڈی نے جب پریس کانفرنس کرکے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھایا اور یہ انکشاف کیاکہ راولپنڈی ڈویژن کے 13 حلقوں میں ہارے ہوئے امیدواروں کو جتوایا گیا اور وہ اس دھاندلی پر شرمندہ ہیں۔ ساتھ ہی کمشنر نے یہ بھی مطالبہ کیاکہ انہیں راولپنڈی کے کچہری چوک میں سرعام پھانسی دی جائے تو مجھے وہ شیخ غلام حسین بارے لکھا گیا کالم یاد آگیا اور جنرل ضیاالحق پر لگائے دھاندلی کے الزامات دوبارہ ذہن میں گھومنے لگے کہ پاکستان کی تاریخ میں ہر الیکشن کو متنازعہ قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کا سدباب ابھی تک نہیں ہوسکا۔ نہ ظہور عادل کمیٹی کی سفارشات کارگر ثابت ہوئیں اور نہ نگراں حکومتوں کے قیام کا تجربہ کامیاب ہوا۔

اگر ہم ماضی قریب کو دیکھیں 2013 میں الیکشن عدلیہ کی نگرانی میں منعقد ہوئے۔ تمام ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے گئے۔ لیکن آپ نے دیکھا ان الیکشن کی شفافیت پر کس قدر الزامات لگائے گئے۔ عمران خان نے 35 پنکچر کا الزام لگایا اور پھر اس الزام کو ایک سیاسی بیان قرار دیا۔ بعد میں ان الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک بینچ تشکیل دیا گیا لیکن کوئی منظم دھاندلی ثابت نہ ہوسکی۔

عدلیہ کے ماتحت الیکشن متنازعہ ہونے کے بعد فوج کی زیرنگرانی الیکشن کرانے کا تجربہ کیا گیا اور 2018 کے الیکشن میں فوج کو تعینات کیا گیا۔ لیکن ان کے نتائج بھی متنازعہ ہوگئے۔ فوج اور عدلیہ کے بعد 2024 کے الیکشن کو ایک بار پھر انتظامیہ کی زیرنگرانی کروانے کا فیصلہ ہوا۔ ان انتخابات کا جو حشر ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ بہرحال کمشنر راولپنڈی کے الزامات کو غیر سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا۔ ان الزامات کی تحقیقات بالکل شفاف انداز میں ہونی چاہییں کیونکہ انہوں نے یہ الزامات صرف چیف الیکشن کمشنر پر ہی نہیں لگائے بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان پر بھی لگائے ہیں۔

ان الزامات پر دو لیول پر تحقیقات ہونی چاہیے، ایک تو اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ کمشنر نے کہیں یہ الزامات کسی دباؤ یا اور وجوہات کی وجہ سے تو نہیں لگائے۔ اس حوالے سے ان کی تمام ڈیجیٹل کمیونیکیشن بشمول کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) کے ذریعے یہ تعین کرنا لازمی ہے کہ وہ الیکشن کے دوران اور بعد میں کس کس سے رابطے میں تھے اور کن کن سے ملے۔ ان تحقیقات سے کم از کم اس پریس کانفرنس کے محرکات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آیا انہوں نے یہ الزامات اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہوئے لگائے ہیں یا کسی کے کہنے پر لگائے ہیں۔

دوسرا اس بات کی تحقیقات ہونا بھی لازمی ہے کہ آیا واقعی راولپنڈی ڈویژن کی تمام 13 نشستوں کے نتائج بدلے گئے؟ اس کے لیے فارنزک آڈٹ ہونا لازمی ہے، تمام انتخابی میٹریل کا بشمول فارم 45۔ کیونکہ کمشنر کی پریس کانفرنس کے بعد راولپنڈی ڈویژن کے تمام تر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے پریس کانفرنس کر کے ان الزامات کی تردید کردی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اگرمستقبل میں ان تنازعات سے بچنا ہے تو پھر اسے دنیا بھر کے الیکشن سسٹمز کا مطالعہ کرکے ان میں سے جو سب سے بہترین نظام ہو اس کے مطابق انتخابات کروانے چاہییں۔ ورنہ اسی طرح ہر الیکشن پر قوم ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp