فلسطین پر 57 برس سے اسرائیل کے ناجائر قبضے کی ’قانونی حیثیت‘ کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف میں آج سے سماعت کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
نیدر لینڈز کے شہر ہیگ میں واقع اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت ’عالمی عدالت انصاف‘ میں اس معاملے پر سماعت 6 دن تک جاری رہے گی جبکہ قانونی بحث میں 50 سے زائد ملکوں کے نمائندے بھی حصہ لیں گے۔
2022 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مشرقی بیت المقدس سمیت اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کے نتائج سے متعلق عالمی عدالت انصاف سے قانونی رائے طلب کی تھی۔ تاہم اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف جو بھی رائے دے، وہ غیر مشروط ہوگی۔
مزید پڑھیں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف سے 2 اہم سوالات پر رائے طلب کی تھی۔ پہلا سوال یہ تھا کہ عدالت اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کے قانونی نتائج کا تجزیہ کرے، جس میں 1967 سے جاری قبضہ، غیرقانونی بستیوں کی تعمیر، فلسطینی علاقوں میں آبادکاری اور مقبوضہ بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے سے متعلق اسرائیلی اقدامات جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی نظر میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی قانونی حیثیت اور اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔ عدالت ان دونوں سوالات پر اپنا فیصلہ ممکنہ طور پر رواں برس کے آخر تک سنائے گی۔
آج اس مقدمہ میں فلسطینی نمائندے خصوصاً وزیر خارجہ ریاض المالکی فلسطین پر ناجائز اسرائیلی قبضے سے متعلق اپنا مؤقف پیش کریں گے۔
یہ معاملہ اس مقدمے سے مختلف ہے جو کچھ عرصہ قبل جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں درج کرایا تھا۔ اس درخواست میں جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر فلسطین میں نسل کشی کا الزام عائد کیا تھا۔ عالمی عدالت انصاف نے اس مقدمے میں اسرائیل کو نسل کشی روکنے اور غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دینے کی ہدایت کی تھی۔ عالمی عدالت نے جنوبی افریقہ کی درخواست پر جنگ بندی سے متعلق کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔
واضح رہے کہ جمعہ کے روز عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کی ایک درخواست مسترد کردی تھی جس میں جنوبی افریقہ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اسرائیل کو مزید اقدامات کرنے کے احکامات دے اور ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنائے۔