پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو آج کل اپنی پارٹی میں شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ مریم اورنگزیب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں پہلی بار وفاقی وزیر اطلاعات بنیں اور پھر پارٹی قیادت کی نظروں کا محور بن گئیں۔ 2017 میں جب شہباز شریف پارٹی صدر بنے تو انہوں نے مریم اورنگزیب کو پارٹی مؤقف بہتر انداز میں پیش کرنے پر پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات کا عہدہ سونپا۔ 2018 میں جب پاکستان مسلم لیگ ن اپوزیشن جماعت تھی تو اس وقت پارٹی قیادت سمیت کئی سینیئر رہنماؤں پر مختلف نوعیت کے مقدمات بنے اور وہ جیل بھی گئے لیکن مریم اورنگزیب کے خلاف ایک یا 2 انکوائریاں ہوئیں مگر تحریک انصاف کی حکومت ان پر ایسا کوئی کیس نہ بنا سکی جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا جاسکے۔
مریم اورنگزیب نے تحریک انصاف کے بیانیے کا کیسے مقابلہ کیا؟
مریم اورنگزیب نے بطور سیکریٹری اطلاعات اپنی پارٹی بیانیے کی تشہیر تو کی لیکن پارٹی کے لوگوں کی جانب سے ان پر تنقید بھی کی گئی۔ جب 2022 میں مریم اورنگزیب کو شہباز شریف نے دوبارہ وفاقی وزیر اطلاعات بنایا تو وہ حکومت کا دفاع کرنے کے بجائے میڈیا اسکرین سے غائب نظر آئیں۔ کئی صحافیوں نے اس بات پر تنقید بھی کی کہ مختلف خبروں کے حوالے سے حکومت کا مؤقف جاننے کے لیے انہوں نے کئی بار مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا لیکن وہ دستیاب نہ ہوئیں اور نہ ہی کوئی مؤقف جاری کیا۔
مزید پڑھیں
پاکستان تحریک انصاف نے ن لیگ کے خلاف مہنگائی، جبری گرفتاریوں کا بیانیہ بنایا لیکن ترجمان ن لیگ اس پر پارٹی مؤقف بہتر انداز میں پیش نہ کرسکیں۔ ن لیگ میں شامل بعض رہنماؤں نے اس بات پر پارٹی قیادت سے گلہ بھی کیا لیکن پارٹی قائد نواز شریف، صدر شہباز شریف اور سینیئر نائب صدر مریم نواز نے اس بات کا نوٹس نہ لیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، اب دوبارہ مریم اورنگزیب پر پارٹی کے اندر سے انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔
کیا ترجمان ن لیگ میڈیا سے دور تھیں؟
پاکستان مسلم لیگ ن کے ذرائع نے وی نیوز کو بتایا کہ حالیہ عام انتخابات میں سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے مقابلے میں ن لیگ کچھ نہ کر سکی، نواز شریف اور مریم نواز کی مثبت پروجیکشن کے حوالے سے بھی مریم اورنگزیب بطور ترجمان کوئی خاص بیانیہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ذرائع کے مطابق ترجمان ن لیگ کوئی بھی معلومات دینے سے قاصر رہیں، حتیٰ کہ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے جلسوں کے شیڈول بھی بروقت جاری نہ کرسکیں۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن رزلٹ والے دن بھی مریم اورنگزیب میڈیا سے دور رہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت حکومت سازی کا عمل جاری ہے، پارٹی کے اندر اس وقت یہ بحث چل رہی ہے کہ ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب وفاق میں نامزد وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بنیں گی یا نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ساتھ پنجاب میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کبھی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ وفاق میں جائیں گی اور کبھی یہ فیصلہ لیا جاتا ہے کہ وہ مریم نواز کے ساتھ پنجاب میں خدمات انجام دیں گی۔ دوسری جانب، مریم اورنگزیب چاہتی ہیں کہ وہ مریم نواز کے ساتھ پنجاب میں رہیں کیونکہ اگر وہ پنجاب میں رہ گئیں تو سمجھ لیں کہ وہ پنجاب کی ڈپٹی وزیراعلیٰ ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق، ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب پر پارٹی میں دباؤ ہے کہ وہ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر پارٹی مؤقف کو جارحانہ انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہیں، یہ تمام باتیں پارٹی قیادت کے علم میں بھی ہیں اور اب پارٹی قیادت کیا فیصلہ کرتی ہے اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سابق وفاقی وزیر دانیال عزیر بھی مریم اورنگزیب پر پارٹی کا مؤقف بہتر انداز میں پیشں نہ کرنے کا الزام لگا چکے ہیں۔ مریم اورنگزیب پر مختلف رہنماؤں اور صحافیوں کو پارٹی قیادت سے دور رکھنے اور پارٹی کے اندر دوسری خواتین کو آگے نہ آنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ سینیئر صحافی عطا الحق قاسمی بھی مریم اورنگزیب کے بار ے میں اپنے کالمز اور مختلف انٹرویوز میں اظہار خیال کر چکے ہیں کہ انکے رویے کی وجہ سے پارٹی کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ اب پارٹی قیادت کو بھی مریم اورنگزیب سے کم از کم یہ کہنا پڑے گا کہ وہ میڈیا کے ساتھ اپنا رویہ بہتر کریں تاکہ پارٹی کو جو مشکلات درپیش ہیں، انکا حل نکالا جا سکے۔