کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہے۔ یہاں ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ رزق کی تلاش میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر قائد وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے پھیلتا چلا جا رہا ہے۔
کراچی میں اس وقت دفاتر میں کام کرنے والوں کو جس اہم چیلنج کا سامنا ہے وہ ٹرانسپورٹیشن ہے۔ روزانہ نقل وحمل اور سفر کی صعوبتیں مردوں سے زیادہ خواتین کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی خاتون کو گلشن معمار، گلشن حدید یا بلدیہ ٹاؤن جیسے علاقوں سے کراچی کے مرکز صدر یا آئی آئی چندریگر روڈ آنا ہے تو ان کے پاس ذاتی گاڑی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بصورت دیگر انہیں متبادل ذرائع کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، جس میں سب سے پہلے آن لائن ٹیکسی سروسز کا خیال آتا ہے۔ لیکن یہ سروسز سستے ہونے کے باوجود مستقل حل نہیں ہیں کیوں کہ آنے جانے میں کرایہ کی مد میں جو رقم وہاں دی جائے گی اسکو مہینہ کے حساب سے دیکھا جائے تو کسی کی آدھی اور کسی کی پوری تنخواہ اس مد میں خرچ ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھیں
ملازمت پیشہ افراد کی اسی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ گروہ شہر میں سرگرم ہوئے۔ انہوں نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے سستی پک اینڈ ڈراپ سروسز کی پوسٹس لگائیں جن میں کرایہ اتنا کم بتایا گیا کہ مردوں کے علاوہ دفاتر میں کام کرنے والی کئی خواتین ان کے جال میں پھنس گئیں۔
’رقم بھجواتے ہی انہوں نے مجھے بلاک کردیا‘
گلشن معمار سے تعلق رکھنے والی ایک متاثرہ خاتون نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ گلشن معمار سے آئی آئی اے چندریگر روڈ پر کام کرنے جاتی ہیں اور وہاں جانے کے لیے ان کے پاس ٹرانسپورٹیشن کا کوئی باقاعدہ بندوبست نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے فیس بک پر سستی پک اینڈ ڈراپ کی ایک پوسٹ دیکھی اور فوری طور پر رابطہ کیا۔ خاتون کو بتایا گیا کہ گاڑی میں صرف ایک سیٹ دستیاب ہے اور اگر وہ پک اینڈ ڈراپ سروس لینا چاہتی ہیں تو 14 ہزار روپے ایڈوانس دیں تاکہ ان کی سیٹ بک کی جائے۔
خاتون نے بتایا کہ مبینہ کمپنی آپریٹر نے اپنا یقین دلانے کے لیے انہیں موبائل پر ایک شناختی کارڈ کی تصویر بھیجی جس سے انہیں یہ یقین ہوگیا کہ کہ یہ فراڈ نہیں ہے۔ خاتون نے بتایا کہ جب انہوں نے دیے گئے نمبر پر ایزی پیسہ کے ذریعہ رقم بھجوائی تو انہیں اس نمبر نے بلاک کر دیا اور مطلوبہ نمبر سے جب رابطہ کیا گیا تو وہ کسی اور جگہ کا نمبر تھا۔ خاتون نے بتایا کہ جن انہوں نے اس حوالے سے پولیس کی مدد لینے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں کہا کہ اس جھمیلے میں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
’کسی نے اب تک ایف آئی آر درج نہیں کرائی‘
ایک اور خاتون نے بتایا کہ ایک ہی شخص ہے جو اپنی تصاویر تبدیل کرتا ہے اور شناختی کارڈ بھی ہر بار مختلف دکھاتا ہے لیکن وہ اب تک کئی خواتین کے ساتھ فراڈ کرچکا ہے۔ تھانہ گلشن معمار کے تفتیشی افسر عمر حیات ٹھاکر نے کہا کہ پولیس شکایت کی بنیاد پر کام کرتی ہے، اس سے قبل آن لائن دھوکہ دہی کے کئی کیس آئے اور رقم بھی بازیاب کی ہے لیکن اس نوعیت کی کسی بھی شکایت کا اب تک اندراج نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ گینگ کہیں اور سے آپریٹ کرتا ہے، شناختی کارڈ کسی اور کا استعمال کیا جاتا ہے، نام بھی فرضی ہوتے ہیں اور موبائل نمبرز بھی کسی اور کے نام پر ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی متاثرہ شخص ایف آئی آر درج کرائے گا تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔